اسلام آباد: غیر سرکاری تنظیم (این جی او) ساحل کی رپورٹ میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ 2017 کے مقابلے میں 2018 کے ابتدائی 6 ماہ میں بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات میں 32 فیصد اضافہ ہوا۔

این جی او کی جانب سے جاری رپورٹ میں بتایا گیا کہ چاروں صوبوں، اسلام آباد، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں اخبارات کی رپورٹس کے مطابق 2 ہزار 3 سو 22 بچوں کے زیادتی کے کیسز سامنے آئے جبکہ گزشتہ برس جنوری سے جون تک یہ تعداد ایک ہزار 7 سو 64 تھی۔

تنظیم کے پیش کردہ اعداد و شمار کے مطابق رواں سال جنوری سے جون کے دوران ہر روز 12 سے زائد بچوں کا استحصال کیا گیا اور ایک ہزار 7 سو 25 کیسز دیہی علاقوں جبکہ 5 سو 97 کیسز شہری علاقوں میں رپورٹ کیے گئے۔

مزید پڑھیں: ریپ کے شکار بچے

رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس کے مقابلے میں لڑکوں کے ساتھ جنسی استحصال میں 47 جبکہ لڑکیوں کے جنسی استحصال کے کیسز میں 22 فیصد اضافہ ہوا اور 6 سے 15 سال کے عمر کے بچوں کو آسانی سے زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔

تاہم رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ 5 سال سے تک کی عمر کے بچوں کے ساتھ اس طرح کے واقعات میں بھی اضافہ ہوا، جو خطرناک ہے۔

گزشتہ برس کے ابتدائی 6 ماہ میں 79 کیسز رپورٹ کیے گئے لیکن رواں سال یہ تعداد کافی حد تک بڑھی اور 5 سال تک کے عمر کے بچوں کے ریپ کے 3سو 21 کیسز ریکارڈ کیے گئے۔

رپورٹ کے مطابق اس طرح کے 48 فیصد کیسز میں زیادتی کرنے والے رشتے دار یا جاننے والے تھے، 14 فیصد کیسز میں جاننے والوں کے ساتھ اجنبی، 11 فیصد اجنبی اور 12 فیصد کیسز میں بدسلوکی کرنے والوں کے بارے میں نہیں بتایا گیا۔

اس کے علاوہ بچوں کے ساتھ بدسلوکی کے 24 فیصد کیسز جاننے والوں کے گھروں، 15 فیصد کیسز متاثرہ بچوں کے گھروں جبکہ 10 فیصد کیسز عام مقامات پر ہوئے۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ بچوں کے ساتھ بدسلوکی کے تمام واقعات میں سے 89 فیصد پولیس کے پاس رجسٹر ہوئے اور 32 کیسز کو پولیس نے رجسٹر کرنے سے انکار کیا جبکہ مختلف وجوہات کی وجہ سے 17 کیسز کو رجسٹر نہیں کیا گیا۔

گزشتہ برس کے مقابلے میں رجسٹر کیسز کی تعداد میں 59 فیصد اضافہ ہوا جبکہ پولیس کی جانب سے کیس رجسٹر کرنے سے منع کرنے میں 32 فیصد کمی ہوئی۔

یہ بھی پڑھیں: کمسن بچی کا ممکنہ طور پر ’ریپ‘ کے بعد قتل ہوا،آئی جی خیبر پختونخوا

صوبوں کے حوالے سے بتایا گیا کہ 65 فیصد کیس پنجاب جبکہ 26 فیصد سندھ میں رپورٹ ہوئے، اسی طرح خیبرپختونخوا میں 69 کیسز، اسلام آباد میں 68 کیسز، بلوچستان میں 55، آزاد کشمیر میں 21 اور گلگت بلتستان میں 2 کیسز رپورٹ کیے گئے۔

اس حوالے سے رپورٹ کے مصنفین میں سے ایک ممتاز گوہر نے ڈان کو بتایا کہ زینب کیس کے بعد امید تھی کہ ایسے واقعات میں کمی ہوگی لیکن بدقسمتی سے اس میں اضافہ ہوا، تاہم اس کیس کے بعد متاثرہ فرد کے اہلخانہ کو یہ ہمت ملی کہ وہ جنسی استحصال کو چھپانے کے بجائے سب کے سامنے لائیں۔


یہ خبر 31 اگست 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں