اسلام آباد: چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے خاتونِ اول بشریٰ عمران کی صاحبزادی کے ساتھ بدسلوکی کے واقعے اور پولیس میں سیاسی مداخلت کی تحقیقات کا حکم دے دیا۔

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس عمر عطا بندیال اور جسٹس اعجازالاحسن پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے ڈی پی او پاکتپن کے تبادلے پر ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی۔

سماعت کے دوران انسپکٹر جنرل (آئی جی) پنجاب عدالت میں پیش ہوئے اور چیف جسٹس کو تمام طلب کردہ افراد کی موجودگی کے بارے میں آگاہ کیا۔

چیف جسٹس نے آئی جی پنجاب سے ڈی پی او کے تبادلہ کے تحریری حکم نامے اور وزیراعلیٰ ہاؤس میں جانے سے متعلق استفسار کیا تو انہوں نے عدالت میں بتایا کہ ڈی پی او رضوان گوندل کو وزیراعلیٰ ہاؤس نہ جانے کی ہدایت کیں، جبکہ ان کے تبادلے کا حکم زبانی دیا۔

مزید پڑھیں: ڈی پی او تبادلہ ازخود نوٹس: خاور مانیکا، خفیہ ادارے کے کرنل عدالت طلب

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کہ سیاستدانوں کی محتاجی اورغلامی چھوڑدیں پولیس سیاسی دباؤ اور حاکموں کے کہنے پر کام نہ کرے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ایک چھوٹا سا مسئلہ تھا جس میں وزیراعلیٰ ، خفیہ ایجنسی کے اہلکار اور پراپرٹی ٹائیکون بھی شامل ہوگئے۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس نے آئی جی پنجاب کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ دائیں، بائیں اور درمیان سے جھوٹ بولا جارہا ہے، تاہم اگر ضروری ہوا تو 62 ون ایف کے تحت نوٹس جاری کرتے ہوئے وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کو بھی طلب کیا جاسکتا ہے۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیے کہ اگر ڈی پی او کی سُستی ثابت ہوئی تو معطلی اپنی جگہ انضباطی کارروائی بھی کی جائے گی۔

یہ بھی پڑھیں: خاور مانیکا کو روکنے پر ڈی پی او کا تبادلہ؟

چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دیے کہ خاورمانیکا اور ان کی صاحبزادی کے ساتھ ہونے والی بدسلوکی کے واقعے میں ملوث تمام اہلکاروں کو سزا دلوائیں گے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عدالت پولیس کی جانب سے خاورمانیکا کی بیٹی کے ساتھ ہونے والی بدتمیزی پر شرمندہ ہے، اور عدالت قوم کی جانب سے معذرت کرتی ہے۔

احسن جمیل گجر نے خود کو خاور مانیکا کے بچوں کا گارڈین قراردیا جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ کو بچوں کی کسٹڈی کس نے دی تاہم احسن جمیل گجر نے کچھ نہ کہنے کا موقف اپنائے رکھا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ احسن گجر وزیرِاعلیٰ پنجاب کے پاس کیسے پہنچے اس کی بھی تحقیقات کروائی جائے گی۔

عدالت نے حکم جاری کیا کہ خاور مانیکا کی صاحبزادی سے بدسلوکی اور وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی مداخلت سمیت تمام پہلوؤں پر انکوائری کرکے ایک ہفتے میں رپورٹ پیش کی جائے۔

چیف جسٹس نے ہدایت کی کہ پولیس انکوائری کے وقت ڈی پی اوپاکپتن اور آر پی او ساہیوال کے بیانات کو مدنظر رکھا جائے اور ساتھ ساتھ چیف سیکیورٹی افسرعمر اور احسن جمیل کی مداخلت کے پہلو پر بھی انکوائری کی جائے۔

کیس کا پس منظر

خیال رہے کہ گزشتہ ہفتے عمران خان کی اہلیہ اور خاتون اول بشریٰ بی بی کے سابق شوہر خاور فرید مانیکا کو روکنے والے ڈی پی او کا تبادلہ کردیا گیا تھا۔

معاملے کی تفصیلات بتاتے ہوئے پولیس نے کہا تھا کہ 23 اگست کو پولیس نے پیر غنی روڈ پر خاور مانیکا کو روکنے کا حکم دیا تھا تاہم وہ نہیں رکے تھے۔

بعد ازاں خاور فرید مانیکا نے غصے میں ایلیٹ فورس کے خلاف گندی زبان استعمال کی تھی اور ڈی پی او رضوان عمر گوندل کو ڈیرے پر آکر معافی مانگنے کا کہا تھا، جس پر انہوں نے انکار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’اس میں پولیس کی کوئی غلطی نہیں‘۔

ڈی پی او رضوان عمر گوندل نے وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کو بھی خاور فرید مانیکا سے معافی مانگنے سے انکار کے اپنے موقف سے آگاہ کردیا تھا۔

مزید پڑھیں: خاور مانیکا اور ڈی پی او تنازع، پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن کی مذمتی قرار داد

جس کے بعد 27 اگست کو پنجاب پولیس کی جانب سے نوٹیفکیشن جاری کرتے ہوئے ان کا تبادلہ کردیا گیا، جس کے بعد اوکاڑہ کے تحقیقاتی افسر شاکر احمد شاہد کو پاکپتن کے ڈی پی او کا اضافی چارج دے دیا گیا تھا۔

علاوہ ازیں آئی جی پنجاب ڈاکٹر سید کلیم امام نے معاملے پر وضاحت دیتے ہوئے کہا تھا کہ ڈی پی او کا تبادلہ کسی دباؤ پر نہیں بلکہ واقعے کے متعلق غلط بیانی کرنے پر کیا گیا۔

آئی جی پنجاب کا کہنا تھا کہ شہری سے اہلکاروں کی بدتمیزی پر ڈی پی او نے غلط بیانی سے کام لیا، ٹرانسفر آرڈر کو غلط رنگ دینے، سوشل میڈیا پر وائرل کرنے پر رضوان گوندل کے خلاف انکوائری کا حکم دے دیا گیا۔

بعدِ ازاں چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے ڈی پی او پاکپتن رضوان گوندل کے تبادلے کے معاملے کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے 3 سمتبر کو خاور مانیکا اور خفیہ ادارے کے کرنل کو عدالت میں طلب کرلیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں