اسلام آباد: چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے عدالتی کارروائی کے دوران ریمارکس دیے کہ اگر فوج کو ہاؤسنگ سوسائٹیز بنانی ہیں تو اپنے لوگوں کے لیے بنائے۔

عدالتِ عظمیٰ میں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے لاہور میں بل بورڈز ہٹانے کے حوالے سے ازخود نوٹس کی سماعت کی۔

سماعت کے آغاز میں عدالت کو آگاہ کیا گیا کہ لاہور میں بل بورڈز نیشنل لاجسٹک سیل (این ایل سی)، نیشنل ہائی وے اتھارٹی (این ایچ اے) اور ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی (این ایچ اے) نے لگا رکھے ہیں۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی کے اربوں روپے کہاں جاتے ہیں، کیا ملک کی فوج بھی کبھی پیسہ کمانے کے لیے کاروبار کرتی ہے، کیا یہ فوج کا کام ہے کہ وہ ہاؤسنگ اسکیم بنائے؟

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ فوج نے ہاؤسنگ اسکیم بنانی ہے تو وہ اپنے ملازمین اور شہداء کے لیے بنائے۔

مزید پڑھیں: لاہور میں بل بورڈز لگانے پر چیف جسٹس کا ازخودنوٹس

چیف جسٹس نے کہا کہ ہاؤسنگ سوسائٹی بنا کر پلاٹ عام لوگوں کو بیچنا شروع کر دیے جاتے ہیں جس میں الاٹمنٹ اور ٹرانسفر کی مد میں اربوں روپے کمائے جاتے ہیں۔

بل بورڈز لگانے کے حوالے سے انہوں نے ریمارکس دیے کہ بل بورڈز لگانے کے لیے اصول وضع کیے جائیں گے جو پورے ملک میں لاگو ہوں گے۔

چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں مزید کہا کہ لاہور کے ہر کھمبے پر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور اس کے رہنما چوہدری سرور کے بینر لگے ہیں، کیا انہیں یہ بینرز لگانے کی اجازت پی ایچ اے نے دی؟

پارکس اینڈ ہارٹی کلچر اتھارٹی (پی ایچ اے) کی ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) ناہید گل بلوچ نے عدالت میں مزید بتایا کہ ادارے سے بل بورڈز لگانے کی منظور نہیں لی گئی اور نہ ہی بل بورڈز پی ایچ اے نے لگائے ہیں، جبکہ انہیں ہٹانے کی کوشش کی گئی تو ملازمین کے خلاف مقدمات درج کرلیے گئے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ 2010 میں پی ایچ اے نے 13 سو 4 بل بورڈز ہٹائے تھے، اور نہ ہی اس وقت سڑکوں پر ادارے کا کوئی بل بورڈ موجود ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ڈی ایچ اے سٹی کے باعث کسان اپنی زرعی اراضی سے محروم

ناہید گل بلوچ نے مزید کہا کہ لاہور میں لگائے گئے بل بورڈز کنٹونمنٹ، ڈی ایچ اے، این ایل سی اور این ایچ اے کے ہیں۔

کنٹونمنٹ کے وکیل لطیف کھوسہ نے عدالت میں کہا کہ کینٹ کو حکومتوں سے کوئی فنڈ نہیں ملتے، کینٹ کے عوام کو سہولیات دینے پر خرچہ ہوتا ہے جبکہ کینٹ آمدن کا بڑا حصہ بل بورڈز سے ہی آتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ کنٹونمنٹ ہسپتال کا 30 فیصد خرچ بل بورڈز سے ہی آتا ہے جس پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ کیا خرچہ پورا کرنے کے لیے کسینو کھولا جا سکتا ہے؟

جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ کچھ بل بورڈز پر ویڈیوز چلتی ہیں اور یہ دورانِ سفر ڈرائیور کی توجہ ہٹانے کا بھی باعث بنتی ہیں۔

عدالت نے کمشنر لاہور کو تمام علاقوں سے بل بورڈ ہٹانے کا حکم جاری کرتے ہوئے ریلوے، این ایل سی اور کنٹونمنٹ سے 10 روز میں جواب طلب کرلیا۔

سماعت کے دوران ڈی ایچ اے کی طرف کوئی نمائندہ عدالت پیش نہیں ہوا تاہم کیس کی مزید سماعت ستمبر کے آخری ہفتے تک ملتوی کردی گئی۔

یاد رہے کہ 25 اگست کو چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے الیکشن مہم کے دوران انتخابی امیدواروں کی حمایت میں لگائے گئے بینرز کو اتارنے کے حوالے سے کیس کی سماعت کے دوران لاہور میں بل بورڈز لگانے کے خلاف نوٹس لیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (3) بند ہیں

KHAN Sep 04, 2018 05:57pm
انشاء اللہ جب کراچی کی طرح لاہور سے بل بورڈز صاف ہوجائینگے تو لاہوریوں کو اپنا شہر انتہائی کھلا کھلا محسوس ہوگا۔ ان کا دل باغ باغ ہوجائیگا انکو ہماری طرح نیلا آسمان نظر آئے گا اور وہ چیف جسٹس کو دل کی گہرائیوں سے سراہنے لگیں گے۔ سپریم کورٹ کے حکم پر کراچی سے بل بورڈز ہٹانے کو 99 فیصد افراد نے سراہا۔ تاہم قوانین اور سپریم کورٹ کے حکم کی خلاف ورزی کرتے ہوئے چند ایک اب بھی لگے ہوئے ہیں، ان میں سب سے بڑا کراچی میں سپریم کورٹ رجسٹری کے سامنے شاہین کمپلیکس پر بنایا گیا ہے۔ اس کی منظوری دینے والے نے لالچ میں آکر یہ بھی نہیں سوچا کہ شاہین کمپلیکس، مزار قائد، ایچ بی ایل بلڈنگ کی طرح کراچی کا ایک اہم ثقافتی نشان ہے۔ اس کی وجہ سے پورا شاہین کمپلیکس بھدا نظر آتا ہے۔ اسی طرح ایف ٹی سی فلائی اور کے ساتھ لوگوں نے گھروں پر بل بورڈز لگائے ہوئے ہیں حالانکہ ان کو ہٹانا کچھ مشکل نہیں، انھوں نے اپنے گھروں کو ہوا، روشنی اور ہنگامی حالت میں سہولتوں کی فراہمی سے محروم کر رکھا ہے ، اس بنیاد پر ان کے خلاف کارروائی کی جاسکتی ہے۔ کچھ لوگ اب بھی شہدا کی تصاویر لگا کر دوبارہ بل بورڈ لگانے کے چکر میں ہیں۔
KHAN Sep 04, 2018 07:51pm
افسوس ہوتا ہے کہ بل بورڈ لگانے کے لیے سپریم کورٹ کے سامنے انتہائی بونڈھے دلائل بیان کیے جاتے ہیں، کراچی میں موجود تمام کنٹونمنٹس، ڈی ایچ اے اور اسی طرح دیگر اداروں نے بھی یہ دلائل پیش کیے مگر آخر کار کراچی سے ان بل بورڈز کا خاتمہ ہوگیا، ہر بل بورڈ پر ہزاروں واٹ کے درجنوں بلب لگا کر بجلی بھی ضائع کی جاتی تھی، کے الیکٹرک بھی بجلی بچانے کے نام نہاد دعوئوں کے باوجود بل بورڈ لگانے کے دوسرے دن ہی انکو کنڈا یا میٹر کنکشن دے دیتی تھی، کلفٹن بلاک 5 کے ایک طرف جہاں بل بورڈز نہیں لگے تھے وہاں لگے درخت سرسبز اور اونچے ہیں مگر بلاک 7 ، 8 اور 9 میں بل بورڈز کے لیے کاٹے جانے کے باعث یا تو موجود ہی نہیں یا پھر جھاڑیوں کی شکل میں ہیں، تاجرانہ ذہنیت والوں نے نئے بننے والے پنجاب کالونی اوور پاس کے قریب خوبصورت گرین بیلٹ پر لگے کم از کم 10 سال پرانے اکیلے درخت کو اگست کے مہینے میں کاٹ کر وہاں قومی پرچم اور کمپنی کا نام لگادیا، یہ درخت اکیلا تھا اور وہاں سے گزرتے ہوئے بہت اچھا لگتا تھا۔ قومی پرچم لگانے کیلیے اردگرد بہت سی جگہ موجود تھی مگر اپنی کمپنی کا نام لگانے کیلیے اس سرسبز درخت کو ہی کاٹ دیا گیا۔
KHAN Sep 05, 2018 06:49pm
[[[[[ یہ تبصرہ لکھنے کے بعد آج 4 ستمبر 2018 کو کراچی شاہراہ فیصل پر واقع ایف ٹی سی فلائی اوور سے گھر جانے کے لیے گزر ہوا تو دیکھا کہ وہاں توڑے گئے بل بورڈز کی مرمت کی جارہی تھی، ان مزدوروں نے معلوم کرنے پر بتایا کہ ہم تو صرف کام کررہے ہیں، ہم ٹھیکیدار کے مزدور ہیں، پتہ نہیں کام کون کروارہا ہے، اگر سپریم کورٹ کی جانب سے پابندی کے بعد ان بل بورڈز کو دوبارہ لگایا جارہا ہے تو انتہائی افسوس کی بات ہے۔]]]]]