وزیر اعظم نے ماجد خان کو چیف ایگزیکٹو بنانے کی تجویز مسترد کردی

اپ ڈیٹ 11 ستمبر 2018
ماجد خان 90کی دہائی میں بھی پاکستان کے چیف ایگزیکٹو رہ چکے ہیں— فائل فوٹو: اے پی
ماجد خان 90کی دہائی میں بھی پاکستان کے چیف ایگزیکٹو رہ چکے ہیں— فائل فوٹو: اے پی

وزیر اعظم پاکستان اور پاکستان کرکٹ بورڈ(پی سی بی) کے پیٹرن ان چیف نے بورڈ کے نو منتخب چیئرمین احسان مانی کی جانب سے سابق اوپننگ بلے باز ماجد خان کو پی سی بی کا چیف ایگزیکٹو آفیسر بنانے کی تجویز مسترد کردی ہے۔

پاکستان کی جانب سے ون ڈے کرکٹ میں پہلی سنچری بنانے کا اعزاز رکھنے والے ماجد خان قومی ٹیم کے سابق کپتان اور وزیر اعظم عمران خان کے کزن ہیں اور دونوں نے ایک عرصے تک ساتھ کرکٹ بھی کھیلی ہے۔

ماہرین کا ماننا ہے کہ ماجد خان چیف ایگزیکٹو آفیسر کے عہدے کے لیے سب سے بہترین اور موزوں ترین شخصیت ہیں لیکن عمران خان اپنے کسی بھی رشتے دار کو عہدہ دینے سے کترا رہے ہیں۔

مزید پڑھیں: احسان مانی کی آمد اور ان سے توقعات!

احسان مانی نے چیئرمین پی سی بی منتخب ہونے کے بعد اپنی پہلی پریس کانفرنس میں بورڈ کے چیئرمین کی جانب سے چیف ایگزیکٹو کا عہدہ بھی رکھنے پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا۔

انہوں نے کہا تھا کہ ہمارے بورڈ میں چیئرمین اور چیف ایگزیکٹو دونوں ایک ہیں اور دنیا کے کسی بھی بورڈ میں ایسا نہیں ہے۔

چیئرمین پی سی بی نے وضاحت کرتے ہوئے بتایا تھا کہ چیئرمین کا کام پالیسیوں پر چیف ایگزیکٹو کے ذریعے عمل درآمد کرانا ہے اور چیف ایگزیکٹو بورڈ کی مینجمنٹ کا ذمے دار ہوتا ہے لہٰذا ہم ان دونوں عہدوں کو الگ الگ رکھیں گے۔

احسان مانی کسی اہل اور موزوں شخص کو چیف ایگزیکٹو کا عہدہ دینے کے خواہشمند ہیں اور اسعہدے کے لیے ماجد خان سب سے مضبوط اور بہترین امیدوار ہیں کیونکہ وہ ماضی میں بھی یہ ذمے داری خوش اسلوبی سے انجام دے چکے ہیں۔

ماجد خان بے نظیر بھٹو کے دور حکومت کے آخری حصے کے ساتھ ساتھ نواز شریف کی حکومت کے ابتدائی ایام میں بھی بورڈ کے چیف ایگزیکٹو کی حیثیت سے خدمات انجام دے چکے ہیں۔

چیف ایگزیکٹو کی حیثیت سے انہوں نے میچ فکسنگ کی لعنت کے خلاف آواز بلند کرتے ہوئے اس کے خاتمے کے لیے سخت اقدامات کیے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: 'کرکٹ کا پاکستانی ماڈل' متعارف کرانے کا اعلان

تاہم نواز شریف نے بعد میں ان کی جگہ خالد محمود کو عہدہ سونپ دیا تھا جنہوں نے اعلان کیا تھا کہ وہ اس وقت تک کسی بھی کرکٹر کو ٹیم سے باہر نہیں کریں گے جب تک اسے مجرم قرار نہ دے دیا جائے۔

بدقسمتی سے اس اعلان کے بعد پاکستان کرکٹ میں میچ فکسنگ ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتی گئی اور نوبت یہاں تک آئی کہ 1999 کے ورلڈ کپ میں قومی ٹیم بنگلہ دیشی کمزور اور نووارد ٹیم سے ہار گئی اور پھر فائنل میں آسٹریلیا کے ہاتھوں بدترین شکست سے دوچار ہوئی جس کے بعد ہر جانب سے میچ فکسنگ کے خلاف کارروائی کی آوازیں بلند ہونے لگیں۔

اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف نے صورتحال کا نوٹس لیتے ہوئے جسٹس ریٹائرڈ ملک قیوم کی زیر سربراہی جوڈیشل کمیشن قائم کیا تھا جس نے متعدد کرکٹرز کو سزائیں دینے کے ساتھ ساتھ جرمانے بھی کیے تھے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں