روس نے اپنی تاریخ کی سب سے بڑی جنگی مشقوں کا آغاز کردیا ہے جس میں ہزاروں روسی اور چینی فوجی اپنی قوت کا مظاہرہ کریں گے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق روسی وزارت دفاع نے ایک بیان میں بتایا کہ روس نے شمالی حصے میں بحرالکاہل پر جنگی مشقوں کا آغاز کردیا، ’ووسٹوک 2018 ‘ نامی یہ جنگی مشقیں ایک ہفتے تک جاری رہیں گی۔

روس کی جانب سے فوجی گاڑیوں،جہازوں ،ہیلی کاپٹروں اور بحری جہازوں کی مشقوں کے لیے پوزیشن سنبھالنے کی ویڈیو فوٹیج بھی جاری کی گئیں۔

دوسری جانب نیٹو نے ان مشقوں میں چین اور منگولیا کی افواج کی شمولیت کو ’بڑے پیمانے پر کشیدگی‘ قرار دیا اور اس کی مذمت بھی کی۔

ووسٹوک 2018 میں روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کی آمد متوقع ہے جو روس کے مشرقی شہر والڈیوسٹک میں اقتصادی فورم میں شرکت کریں گے،اس فورم میں چینی صدر ژی جن پنگ بھی مہمانِ خصوصی ہیں۔ '

مزید پڑھیں : روس کی پاکستان کے ساتھ پہلی بار فوجی مشقیں

اس سے قبل اتنے بڑے پیمانے پر روس نے آخری مرتبہ سرد جنگ کے دور میں 1981 میں زی پاڈ 81 (ویسٹ 81 ) کے نام سے جنگی مشقوں کا انعقاد کیا تھا جو سوویت دور کی سب سے بڑی جنگی مشق تھی۔

روسی وزیر دفاع سرگئی شوگو کا کہنا تھا کہ ان مشقوں میں 3 لاکھ سپاہی، 36 ہزار فوجی گاڑیاں ، ایک ہزار جہاز اور 80 جنگی بحری جہاز حصہ لے رہے ہیں۔

سرگئی شوگو نے بتایا کہ ’ایک ہی وقت میں 36 ہزار فوجی گاڑیوں کو حرکت کرتے ہوئے تصور کریں، جس میں ٹینک، بکتر بند گاڑیاں اور دیگر فوج شامل ہوں، ممکنہ طور پر یہ ایک جنگی صورتحال نظر آئے گی۔

ایک ہفتے تک جاری رہنے والی ان مشقوں کا انعقاد ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب روس اور نیٹو اتحاد کے ملکوں میں شدید کشیدگی پائی جاتی ہے۔

جدید ترین سازوسامان

حال ہی میں روس کے دفاعی سازو سامان میں شامل ہونے والے نئے ہتھیار جن میں اسکندر میزائل، ٹی 80 اور ٹی-90 ٹینک اور اس کے نئے جنگی طیارے ایس یو 34 اور ایس یو 35 ہیں، جنگی مشقوں میں نظر آئیں گے۔

روس کا بحری بیڑہ کلبر میزائلوں سے لیس ہے جو شام میں کیے جانے والے حملوں میں استعمال ہوئے تھے۔

سائبیریا کے مشرقی علاقے میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ بدھ کو اینٹی ایئر کرافٹ ٹیکنالوجی کی خصوصیات کی مشق کی جائے گی اور جمعرات سے باقاعدہ مشق کا آغاز ہوگا۔

دوسری جانب نیٹو کا کہنا ہے کہ ووسٹوک 2018 سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ روس بڑے پیمانے پر کشیدگی کی تیاری کررہا ہے۔

گزشتہ ماہ کریملن ترجمان کا دمتری پیسکوف نے کہا تھا کہ ’روس کی طرف سے جارحانہ اور غیر دوستانہ بین الاقوامی رویوں کے باعث روس کی جنگی مشقیں منصفانہ اور ضروری ہیں۔‘

روس اور 29 یورپی ملکوں کے درمیان دفاعی اتحاد نیٹو کے درمیان اس وقت سے تعلقات کشیدہ ہیں جب روس نے 2014 میں یوکرائن کے علاقے کرائیمیا پر قبضہ کر لیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں : روس اور چین کی مشترکہ بحری مشقیں

حالیہ چند سالوں میں روس نے کاکیشیائی، بالٹک اور آرکٹک علاقو ں میں بڑے پیمانے پر جنگی مشقوں میں اضافہ کیا ہے۔

گزشتہ سال ذی پاڈ 2017 میں 12 ہزار 700 فوجیوں نے حصہ لیا جبکہ یوکرائن اور بالٹک کا کہناہے کہ اصل اعداد وشمار اس سے کئی زیادہ تھے۔

اس سے قبل روس کی جنگی مشق ووسٹوک 2014 صرف ایک لاکھ 55 ہزار فوجیوں پر مشتمل تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں