افغان طالبان کا کہنا ہے کہ امریکا کے ساتھ مذاکرات کے دوسرے مرحلے کے لیے تیار ہیں۔

خبررساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹ کے مطابق چند روز قبل طالبان عہدیدار نے ایک انٹرویو میں امریکا سے مذاکرات کے دوسرے مرحلے کے آغاز کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ امریکا سے مذاکرات میں قیدیوں کے تبادلے، باہمی اعتماد سے متعلق اقدامات اور بند کمرہ ملاقاتوں کے بجائے باقاعدہ اعلانیہ مذاکرات کی طرف بڑھنے کے طریقوں کو زیرِ غور لایا جائے گا۔

شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر افغان طالبان کے عہدیدار نے امریکا کی قائم مقام معاون وزیر خارجہ برائے جنوبی اور وسطی ایشیا ایلس ویلز سے رواں سال جولائی میں کی گئ ملاقات کی تفصیلات بھی بتائیں۔

خیال رہے کہ افغان طالبان کو میڈیا سے بات کرنے کی اجازت نہیں۔

انہوں نے بتایا کہ امریکا سے ملاقات کا اختتام ستمبر میں ملاقات کے ارادے پر ہوا تھا، امریکا نے طالبان سے ملاقات سے متعلق خبروں کی کوئی تصدیق یا تردید نہیں کی۔

مزید پڑھیں : امریکا تیسرے فریق کو چھوڑ کربراہِ راست مذاکرات کرے، طالبان

دوسری جانب طالبان نے افغانستان میں طالبان کے کردار اور نیٹو، امریکی فورسرز کی افغانستان کی موجودگی سے متعلق امریکا کے تحفظات دور کرنے کے لیے براہ راست مذاکرات کا راستہ اختیار کیا۔

ایسوسی ایٹڈ پریس فرام قطر سے بات کرنے والے طالبان عہدیدار کا کہنا تھا کہ وہ امریکا کی جانب سے مذاکرات کے لیے دوسرے اجلاس کی تاریخ بتائے جانے کےمنتظر ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ جولائی میں ہونے والی ملاقات میں افغان طالبان نے قطر کے دارالحکومت میں قائم طالبان کے سیاسی دفتر کو تسلیم کیے جانے اور ان کے اعلیٰ رہنماؤں پر عائد پابندیوں کو ہٹانے کا مطالبہ کیا تھا۔

علاوہ ازیں طالبان نے افغانستان کی جیلوں میں طالبان قیدیوں کی رہائی کا دیرینہ مطالبہ بھی دہرایا تھا، طالبان کا دعویٰ ہے کہ ان کی قیدیوں کی تعداد تقریباً 2 ہزار ہے۔

امریکا بھی طالبان کے زیر حراست دو پروفیسروں کی رہائی کا مطالبہ کررہا ہے، کیون کنگ اور آسٹریلوی پورفیسر ٹیموتھی ویکس کو اگست 2016 میں کابل میں واقع امریکین یونیورسٹی سے اغوا کیا گیاتھا۔

طالبان کی ویب سائٹ پر جاری بیان کے مطابق،طالبان نے گزشتہ ماہ انٹرنیشنل کمیٹی آف ریڈ کراس (آئی سی آر سی) سے کیے گئےسیکیورٹی وعدوں کی خلاف ورزی کی تھی۔

اپنے بیان میں طالبان کا کہنا تھا کہ ریڈٖ کراس ( آئی سی آر سی) افغانستان کی پُل چرخی جیل میں ان قیدیوں کی مدد کرنے میں ناکام ہوگئی تھی جو قید کے حالات کی وجہ سے احتجاجاً بھوک ہڑتال پر تھے۔

یہ بھی پڑھیں : طالبان سے مذاکرات کیلئے آمادہ ہیں، امریکا

افغان طالبان نے اپنے بیان میں افغانستان میں کام کرنے والے دیگر اداروں کو بھی خبردار کیا تھا، انہوں نے کہا تھا کہ ’سمجھ جائیں کہ اگر انہوں نے مظلوم افراد کی ضروریا ت کو مدنظر رکھنے کی بجائے غیرمتعلقہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے کی کوشش کی تو اسلامی امارات ان کے ساتھ بھی ویسا ہی سلوک کرے گی جیسا فیصلہ ریڈ کراس کے خلاف کیا گیا تھا۔‘

مزید برآں طالبان عہدیدار کا کہنا تھا کہ طالبان اور امریکا کے درمیان بات چیت ابھی ابتدائی مراحل میں ہے ، جس میں مذاکرات کے ایجنڈے سے متعلق کام کیا جارہا ہے۔

طالبان عہدیدار کا کہنا تھا کہ جولائی میں امریکا سے ہونے والی ملاقات میں کئی معاملات کو زیرِ غور لایا گیا تھا۔

انہوں نے مزید بتایا کہ آئندہ ماہ کابل میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات کو پُرامن بنانے کے لیے امریکا کی جانب سے دو ماہ کی جنگ بندی ک درخواست کی گئی تھی تاہم کوئی معاہدہ نہیں ہوسکا تھا۔

طالبان عہدیدار کا کہنا تھا کہ جولائی میں امریکا سے کی گئی ملاقات کی تفصیلات طالبان لیڈرشپ کونسل کے نمائندے نورالدین ترابی کو بتائی گئیں تھیں جو بریفنگ کے لیے قطر آئے تھے۔


یہ خبر ڈان اخبار میں 13 ستمبر 2018 کو شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں