حکومت کو ملکی ٹیکس آمدن کو بڑھانے اور محصولات کے خلا کو پُر کرنا ہے تو اس کے لیے اسے نئے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔

ڈان اخبار میں شائع مضمون کے مطابق ٹیکس ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کے پاس ٹیکس کی مد میں ہر سال میں 80 کھرب روپے بنانے کی صلاحیت موجود ہے جبکہ وزیرِ اعظم عمران خان نے بھی ملک کو مزید بیرونی قرضوں سے بچانے کے لیے 80 کھرب روپے تک ٹیکس آمدن لے جانے کا اعادہ کیا تھا۔

پاکستان کے ٹیکس آمدن کو 30 کھرب 80 ارب روپے سے 80 کھرب روپے تک لے جانے کے امکانات میں ٹیکس فرق کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا جو ملکی مجموعی پیداوار (جی ڈی پی) کے 9.8 فیصد ہے۔

ملک کی مجموعی ٹیکس حصول اور ٹیکس کی ادائیگی میں فرق ہی ٹیکس کے مترادف ہے۔

مزید پڑھیں: نئی حکومت کا سابقہ حکومت کی ٹیکس استثنیٰ پالیسی واپس لینے پر غور

اتنے بڑے ٹیکس ہدف کو حاصل کرنے کے لیے حکومت کو ٹیکس پالیسی، ٹیسک کے حصول میں میکنیزم کی مضبوطی اور ٹیکس نظام میں خامیوں کو ختم کرنے کے لیے ایمانداری کے ساتھ کام کرنا ہے۔

تاہم غیر موزوں ٹیکس پالیسی بڑھتے ہوئے ٹیکس فرق کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ مالی سال 18-2017 کے دوران ٹیکس اخراجات کا حجم جی ڈی پی کے 4.4 فیصد تھا، جو تقریباً 5 کھرب 40 ارب روپے تھا۔

ٹیکس اخراجات میں ٹیکس دہندگان کے لیے چھوٹ، استثنیٰ، کٹوتی اور کریڈٹ شامل ہیں جو مخصوص ٹیکس دہندگان کو دیے جاتے ہیں۔

ٹیکس اخراجات کو اس کی اصل حالت میں نافذ کرنے سے منصفانہ ٹیکس کے نظام کے لیے ضروری ٹیکس بیس کو وسیع کرنے میں مدد ملے گی۔

یہ بھی پڑھیں: ’ تنخواہ دار طبقے کا ٹیکس بڑھانے کا فیصلہ نہیں ہوا ‘

ٹیکس پالیسی کے دوسرے عنصر کو بھی خاص توجہ کی ضرورت ہے جس کا مقصد ٹیکس کی دفعات کو آسان بنانا ہے، کیونکہ انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 میں کچھ معاملات اتنے پیچیدہ ہیں، جنہیں آسانی کے ساتھ نافذ نہیں کیا جاسکتا۔

مزید براں یہ کہ ٹیکس کے نظام کو معاشی ترقی کا مدد گار اور منصفانہ بنانے کے لیے ودہولڈنگ ٹیکس پر بھی نظر ثانی کی ضرورت ہے۔

اس جائزے میں سب سے زیادہ انحصار براہِ راست ٹیکس کے حصول پر کیا جائے اور اسے آہستہ آہستہ بڑھایا جائے جبکہ ود ہولنگ ٹیکس کو آہستہ آہستہ کم کیا جائے۔

ٹیکس خلا کو پُر کرنے کے لیے حکام کو پاکستانی معیشت کے اہم حصوں جیسے ریئل اسٹیٹ، سروسز، ہاسپٹالٹی، کھانے، نئے ابھرتے ہوئے کاروبار اور گاڑیوں اور دیگر پُر آسائش اشیا سمیت گھروں کی بروکیج پر اہم توجہ دینی چاہیے۔

ان تمام کاروباری حصوں میں مخصوص ٹیکس کے نظام کو متعارف کروانے کی ضرورت ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں