پشاور: خیبرپختونخوا اور فاٹا کے انضمام کے بعد درہ آدم خیل میں غیر قانونی اسلحہ ساز فیکٹریوں کو قانونی شکل دینا وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے لیے ایک بڑا چیلنج بن گیا۔

حکام کا کہنا ہے کہ علاقے میں اسلحہ سازوں کے 70 مراکز موجود ہیں جہاں خود کار، نیم خود کار اور قدیم ہتھیاروں کی نقل سمیت دیگر ہتھیار تیار کیے جاتے ہیں۔

درہ آدم خیل میں اسلحہ اور گولہ بارود تیار کیے جانے کے لیے کوئی قانونی نظام ،مقامی مارکیٹ اور بیرونِ ملک فروخت سے متعلق کوئی طریقہ کار نہیں اور درہ کی اسلحہ مارکیٹ پر حکومت کا کوئی کنٹرول نہیں۔

علاقے میں موجود مقامی ڈیلرز کو پاکستان ہنٹنگ اینڈ اسپورٹس آرمز ڈیولپمنٹ کمپنی کے ذریعے یورپ اور امریکا سے آرڈر موصول ہورہے ہیں، خیال رہے کہ درہ آدم خیل سے زیادہ تر ہتھیار مقامی مارکیٹ میں اسمگل کیے جاتے ہیں۔

25 مئی کو خیبرپختونخوا سے انضمام کی ترمیم منظور کیے جانے کے بعد ہتھیاروں کی تیاری سے متعلق وفاقی اور صوبائی قوانین درہ ۤآدم خیل پر نافذ نہیں ہوئے تھے۔

حکام کا کہنا تھا کہ ہتھیار سازی سے متعلقہ قوانین درہ آدم خیل سمیت دیگر 7 قبائلی اضلاع میں انضمام کے بعد توسیع کردیے گئے تھے۔

سابق وزیر داخلہ سید اختر علی شاہ کا کہنا تھا کہ حکومت اگر اسلحہ کی تجارت کو قانونی شکل دینا چاہتی ہے تو اسے چاہیے کہ وہ ہتھیار بنانے والوں کو کچھ مراعات فراہم کرے۔

مزید پڑھیں : خیبرپختونخوا کی 'غیر قانونی اسلحہ فیکٹریاں' بند کرانے کا مطالبہ

انہوں نے کہا کہ 'نئے اضلاع میں موجود ہتھیاروں کی مارکیٹ کے لیے حکومت کو قوانین نافذ کرنے چاہئیں لیکن پالیسی پر عملدرآمد کے لیے کچھ مراعات دینا ضروری ہے۔ٗ

انہوں نے مزید بتایا کہ ہتھیار سازوں نے پشاور میں شو رومز قائم کرلیے ہیں لیکن ہتھیار درہ آدم خیل سے ہی لائے جاتے ہیں۔

قبائلی علاقوں میں عسکریت پسندی کے بعد درپیش حالات کی وجہ سے درہ کے علاقے میں ہتھیاروں کی تیاری کا عمل بھی متاثر ہوا تھا جس کی وجہ سے ہتھیارسازوں کو پشاور سمیت ملک کے دیگر حصوں کا رخ کرنا پڑا جس کی وجہ سے علاقے میں ہتھیار سازی کے مراکز میں کمی آئی ہے۔

حکام کا کہنا تھا کہ پابندیوں کے باوجود درہ آدم خیل میں نہ صرف ہتھیار تیار کیے جاتے ہیں بلکہ مارکیٹ میں سپلائی بھی کیے جاتے ہیں جبکہ ان کی تیاری کے لیے خام مال بھی موجود ہے۔

انہوں نے بتایا کہ درہ آدم خیل میں ہزاروں ہتھیار ساز کام کررہے ہیں۔

ایک عہدیدار نے بتایا کہ 'درہ میں بنائے جانے والے سنگل اور ڈبل بیرل گن شوٹس کی سب سے زیادہ مانگ افغانستان میں ہے جہاں تیار شدہ مصنوعات کا تقریبا 30 فیصد حصہ سپلائی کیا جاتا ہے۔'

حکام نے بتایا کہ حکومت درہ آدم خیل میں موجود ہتھیاروں کی مارکیٹ کو قانونی شکل دینے کے لیے اقدامات کررہی تھی، اس میں مقامی ہتبھیار سازوں کو سہولیات کی فراہمی بھی شامل تھی اور انہیں رجسٹرڈ شدہ 66 مراکز کے ساتھ شامل کیا جانا تھا۔

پاکستان ہنٹنگ اینڈ اسپورٹس آرمز ڈیولپمنٹ کمپنی کے چیف ایگزیکٹو آفیسر طاہر نواز خٹک کا کہنا تھا کہ 'درہ آدم خیل تقریباً 80 فیصد مقامی آبادی کو روزگار فراہم کرتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ کمپنی نے درہ میں بنائے جانے والے ہتھیار،ان کی فروخت اور ترسیل سے متعلق پالیسی پر کام شروع کردیا۔

یہ بھی پڑھیں : کوہاٹ سے اسلحہ و گولہ بارود کی بڑی کھیپ برآمد

انہوں نے بتایا کہ درہ آدم خیل میں 200 مینوفیکچرنگ یونٹس کی صلاحیت کا حامل ایک آرمز سٹی بنایا گیا،ان سہولیات پر 3 ارب روپے کی لاگت کا تخمینہ لگایا گیا جس کی فنڈنگ فاٹا ڈیولمپنٹ اتھارٹی کی جانب سے کی جارہی تھی، یہ منصوبہ 2020 تک مکمل ہوگا۔

طاہر نواز خٹک نے مزید کہا کہ درہ مارکیٹ سے بڑے پیمانے پر روزگار اور ریونیو حاصل کیا جاسکتا ہے، انہوں نے کہا کہ پاکستان میں سالانہ 20 سے 40 ملین ڈالر مالیت کے ہتھیار درآمد کیے جاتے پیں۔’

انہوں نے یہ بھی کہا کہ درہ میں موجود ہتھیار ساز اپنے کاروبار کے لیے قانونی طریقہ کار اپنانے کے لیے تیار ہیں۔

حکام نے دعویٰ کیا کہ ہتھیار سازوں کو امریکا ، یورپ اور افریقا میں موجود خریداروں سے آرڈر موصول ہورہے ہیں جبکہ 12 مصنوعات کی یورپ اور امریکا کی بین الاقوامی ایجنسیوں سے کوالٹی ایشورنس سرٹیفیکیٹ حاصل کیے جاچکے ہیں۔


یہ خبر ڈان اخبار میں 24 ستمبر 2018 کو شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں