اسلام آباد: سینیٹ میں اپوزیشن جماعتوں نے حکومت پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ترقیاتی منصوبوں کے فنڈز میں کمی، ٹیکس اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ ہی وہ اصل ’تبدیلی‘ ہے جس کا نعرہ پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی) کی قیادت نے لگایا تھا۔

اپوزیشن سینیٹرز نے دعویٰ کیا کہ پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کے بعض منصوبوں کو روک دیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: ‘پی اے سی کی سربراہی اپوزیشن کو دینا لومڑی کو ڈربے کی رکھوالی کے مترادف‘

پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی سینیٹر شیری رحمٰن نے کہا کہ ’کدھر ہے نیا پاکستان میں تلاش میں ہوں، ناتجربہ کاری جرم نہیں ہے لیکن پورے ملک کو معاشی خدشات کے اندھیرے میں رکھنا قابل جرم ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ ’میری خواہش ہے کہ حکومت کے 100 دن کہیں 100 لطیفے نہ بن جائیں‘۔

بلیک معیشت سے متعلق بات کرتے ہوئے انہوں نے الزام لگایا کہ حکومت ’بلیک معشیت‘ کو سہارا دے رہی ہے جس سے ٹیکس ادا کرنے والوں کو منفی تاثر مل رہا ہے۔

مزیدپڑھیں: بلوچستان کا ترقیاتی فنڈ پنجاب میں خرچ کیے جانے کا انکشاف

انہوں نے کہا کہ ٹیکس ادا نہ کرنے والوں کو نوازنا ناقابل فہم اور غلط ہے۔

شیری رحمٰن نے کہا کہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 39 ارب ڈالر تک پہنچ گیا جبکہ زرمبادلہ کے ذخائر خطرناک حد تک کم ہو چکے ہیں اور ایسے میں منی بجٹ ایک مزاق ہے ۔

خاتون سینیٹر نے ڈیم کے لیے چندہ جمع کرنے کے عمل پر بھی تنقید کرتے ہوئے واضح کیا کہ دنیا بھر میں چھوٹے ذخیرہ آب بنانے کا رجحان ہے اور اس ضمن میں سری لنکا اور بھارت نے 12 ہزار سے 19 ہزار چھوٹے ڈیم بنائیں ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ایشین ڈویلپمنٹ بینک نے ملک میں مہنگائی کی پیش گوئی کردی

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر مشاہد حسین سعید نے کہا کہ حکومت نے سی پیک کے 4 اور گوادر پورٹ کے 12 منصوبے معطل کردیئے جبکہ سی پیک منصوبوں سے 70 ہزار ملازمتیں کے مواقع پیدا ہوتے ہیں۔

انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ ہائیر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) کے 45 منصوبوں کے 5 ارب روپے بھی روک دیئے گئے۔

مسلم لیگ (ن) کے رہنما نے بجٹ کو ملکی معشیت کے لیے تباہ کن قرار دیا اور کہا تھا سی پیک منصوبوں پر خدشات کے بادل منڈالا رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم عمران خان نومبر میں چین کا دورہ کریں گے اور ممکن ہے کہ تمام خدشات دور ہوجائیں۔

مزید پڑھیں: حکومت کو ٹیکس خلا کو پُر کرنے کی ضرورت

مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور سینیٹر جاوید عباسی نے کہا کہ گزشتہ حکومت نے اپنے دور اقتدار میں ایک مرتبہ بھی گیس کی قیمتیں نہیں بڑھائی لیکن تحریک انصاف کی حکومت نے منی بجٹ سے قبل ہی 143 فیصد تک اضافہ کردیا۔

اس ضمن میں انہوں نے واضح کیا کہ حکومت نے ٹیکس کم کرنے کی بات کی لیکن 178 ارب روپے کے نئے ٹیکس لاگو کردیئے اور ترقیاتی منصوبوں کے فنڈز میں بھی 305 ارب روپے کی کٹوتی کردی جو عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف کو خوش کرنے کے مترادف ہے۔

ترقیاتی فںڈز سے متعلق انہوں نے مزید کہا کہ پی ایس ڈی پی کے فنڈز میں کمی سے غربت بڑھے گی اور حکومت ایک کروڑ ملازمت دینے کا وعدہ پورا نہیں کرسکے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت ڈیم کی تعمیر کے لیے سنجیدہ نہی ہے، ’کیا وہ واقعی سنجیدہ ہیں، اگر ہیں تو ڈیم کی تعمیر کے لیے فنڈز کیوں مختص نہیں کیے گئے‘۔


یہ خبر 27 ستمبر 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں