اسلام آباد: ایک تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ فیڈرل رائٹ آف ایکسز ٹو انفارمیشن ایکٹ (آر ٹی آئی ) 2017 کے تحت وفاقی وزارتوں کی نے 39 کٹیگریز سے متعلق درکار معلومات فراہم نہیں کی، 17 وزارتوں نے اپنی ویب سائٹ تک نہیں بنائی جبکہ 29 تسلی بخش کارکردگی دکھانے میں کامیاب نہیں ہوئیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق معلومات تک رسائی کے عالمی دن کی مناسبت سے انسٹیٹیوٹ آف ریسرچ ایڈووکیسی اینڈ ڈویلپمنٹ (ارادہ) کی جانب سے کی گئی تحقیق کا عنوان شفافیت میں، احتساب اور معلومات تک رسائی میں رکاوٹ رکھا گیا تھا۔

تحقیق کے مطابق پروایکٹو ڈسکلوزز شق کے تحت وفاقی وزارتوں نے کارکردگی نہیں دکھائی جس کے نتیجے میں شفافیت، احتساب اور معلومات تک رسائی میں رکاوٹ کا سامنا کرنا پڑا۔

مزید پڑھیں: 'وزیراعظم ہاؤس کے اخراجات جاننے کا حق ہر ایک کو حاصل ہے'

رپورٹ کے مطابق ’پرو ایکٹو ڈسکلوزر وہ عمل ہے جو حکومت اور سرکاری اداروں کے ریکارڈ یا معلومات کو عام شہریوں تک جائزے کے لیے پہنچاتا ہے تاکہ وہ معلومات کا حق کے قوانین کی درخواست کے بغیر اس کا جائزہ لے سکیں‘

تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ 29 وزارتوں کی ویب سائٹس کی معلومات سے متعلق 39 ضروری کٹیگریز کی کارکردگی بد سے بدتر رہی جبکہ انہیں یہ معلومات پہلے ظاہر کرنی چاہیے تھی۔

یہاں تک کہ سب سے بہتر کارکردگی دکھانے والی وزارت خزانہ کی بھی درجہ بندی پروایکٹو ڈسکلوزر کی ضروریات کے مطابق 50 فیصد سے کم رہی۔

ادارے کی تحقیق کے مطابق زیادہ تر وزارتوں نے اپنی ویب سائٹس پر نصب سے زائد کٹیگریز کی معلومات فراہم نہیں کی اور 29 وزارتوں کی 80 فیصد ویب سائٹ کی 39 کٹیگریز میں صرف 5 میں معلومات فراہم کی گئی۔

جاننے کے حق کے وفاقی قانون کے تحت’سرکاری ادارے‘ میں تمام وفاقی وزارتیں، عدالتیں، پارلیمان اور وفاقی قوانین کے تحت چلنے والے مختلف مربوط اور غیر مربوط ادارے شامل ہوتے ہیں۔

قانون کے مطابق ہر سرکاری ادارے کے لیے ضروری ہے کہ وہ ایکٹ کے نفاذ کے 6 ماہ کے دوران انٹرنیٹ کی معلومات اور ریکارڈ کو سیکشن 5 میں اپلوڈ اور عوام کے سامنے لانا ضروری ہے۔

خیال رہے کہ معلومات کا حق شہریوں کو یہ طاقت دیتا ہے کہ وہ تمام تسلیم شدہ حقوق سے فائدہ اٹھاسکیں، یہ حکومتوں اور سرکاری اداروں کو بھی شفاف بناتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: معلومات تک رسائی

دوسری جانب اس رپورٹ کے حوال ے سے ارادہ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر محمد آفتاب عالم کا کہنا تھا کہ’ یہ حق عوام کو سرکاری دستاویزات تک رسائی اور ان کے حاصل کرنے کی اجازت دیتا ہے، جسے وہ کرپشن کے خلاف ایک اہم ذریعہ بنا سکتے ہیں، اس کے علاوہ یہ شہریوں کو سرکاری زندگی میں حصہ لینے کے قابل بناتا ہے، حکومتوں کو موثر کرتا ہے، سرمایہ کاری کو سراہتا ہے اور بنیادی حقوق حاصل کرنے والوں کی مدد کرتا ہے‘

اس موقع پر سابق سینیٹر فرحت اللہ بابر کا کہنا تھا کہ یہ قانون 2 وجوہات کی بنا پر اب تک غیر موثر ہے ، پہلی بات اداروں کے خلاف شکایتوں سے نمٹنے کے لیے 6 ماہ میں انفارمیشن کمیشن بنانا تھا جو اب تک نہیں بن سکا‘۔

انہوں نے کہا کہ دوسری بات یہ قانون کے مطابق تمام سرکاری ادارے اپنے اصل اخراجات، بجٹ میں تبدیلی، ضمنی گرانٹس، کارکردگی اور آڈٹ رپورٹ جیسی معلومات کو عوام کے سامنے پیش کرنا ضروری ہے اور اس حوالے سے بھی 6 ماہ میں کام مکمل ہونا تھا جو نہیں ہوسکا‘۔

تبصرے (0) بند ہیں