ماہر اقتصادیات یوسف نذر کا کہنا ہے کہ ٹیکس نظام کو ڈیجیٹل بنا کر محصولات کی وصولی سے ملکی مجموعی پیداوار (جی ڈی پی) کے تناسب کو دُگنا کیا جاسکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر ٹیکس وصولی کے لیے ڈیجیٹل سسٹم متعارف کروایا جائے تو ملک کی مجموعی پیداوار کی ٹیکس شرح کو 2 سال کی مدت میں 11 فیصد سے 22 فیصد تک پہنچایا جاسکتا ہے۔

یوسف نذر گزشتہ روز جسٹس وجیہہ الدین کی سربراہی میں اتحاد تنظیم کے تحت منعقد ایک پریس کانفرنس میں صحافیوں کے ایک پینل سے خطاب کررہے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ دنیا کے 90 ممالک میں الیکٹرانک فائلنگ اور ٹیکس ادائیگی کے الیکٹرانک سسٹم کو لاگو کیا جاچکا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ابتدائی اقدامات کے تحت حکومت شناختی کارڈ نمبر کو ٹیکس رجسٹریشن نمبر میں تبدیل کرکے اسے مالیاتی ںطام سے منسلک کرسکتی ہے۔

مزید ہڑھیں : حکومت کو ٹیکس خلا کو پُر کرنے کی ضرورت

انہوں نے مزید کہا کہ ایک مرتبہ ڈیجیٹل ٹیکس نظام جب مالیاتی نظام سے منسلک ہوجاتا ہے تو ہرسال کے اختتام پر سود یا ادائیگیاں کرنے والے اداروں کو خودکار طریقے سے مجموعی رقوم وصول ہوں گی۔

انہوں نے خبردار کیا کہ کوئی ملک کمزور معیشیت کے سہارے قائم نہیں رہ سکتا اور اس کا مقابلہ کرنے کے لیے ملک کی مجموعی پیداوار ٹیکس شرح کا استعمال کیا جاسکتا ہے۔

تحقیق کے مطابق ٹیکس ٹو جی ڈی پی کا تناسب 15 فیصد سے تجاوز کرنے کے بعد سرمایہ کاری کے مواقع فراہم کرتا ہے۔

ماہر اقتصادیات نے تجویز دی کہ ٹیکس دہندگان کے درست ای میل ایڈریس حاصل کرنے کے لیے بینکوں کو چیک بکس اور ڈیبٹ کارڈ کی بذات خود فراہمی بند کرنی ہوگی۔

یہ بھی پڑھیں : نئی حکومت کا سابقہ حکومت کی ٹیکس استثنیٰ پالیسی واپس لینے پر غور

انہوں نے مزید کہا کہ حکومت کو ان اشیا جو بذریعہ ڈاک پہنچانا چاہیے اور یہ تنقیدی مرحلہ اس وقت طے کیا جائے گا جب عوام کے درست ایڈریس موجود ہوں گے۔

خیال رہے کہ ایڈریس زیادہ تر منی لانڈرنگ اور ٹیکس کو روکنے کے لیے خفیہ رکھے جاتے ہیں۔

یوسف نذر کا مزید کہنا تھا کہ اس اقدام سے فنانشل ایکشن ٹاسک سے مسائل کم ہونے میں بھی مدد ملے گی اور ٹیکس نیٹ سے باہر قائم ہونے والی معیشیت کا حل کیا جاسکے گا۔

انہوں نے مزید کہا کہ ملک میں 5 کروڑ سے زائد بینک اکاؤنٹس اور 15 کروڑ موبائل صارفین ہیں لیکن ٹیکس ٹو جی ڈی پی کا تناسب22 فیصد تک نہ ہونے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔

بجٹ خسارے سے متعلق مختصر گفتگو کرتے ہوئے یوسف نذر نے کہا کہ 2 سو 80 ارب کے ٹیکس چھوٹ کم کرکے اسے 5 سو ارب روپے تک لے جایا جاسکتا ہے۔

وفاقی سرکاری ترقیاتی پروگرام کے ایک سو 50 ارب روپے، زرعی انکم ٹیکس کو 10 کروڑ سے بڑھا کر 30 ارب کردیا جائے اور سود کی شرح کو 0.6 فیصد کم کرنے سے گردشی قرضوں کو 10 ارب کرنے میں مدد ملے گی۔


یہ خبر ڈان اخبار میں 30 ستمبر 2018 کو شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں