مصر کے دارالحکومت قائرہ کی عدالت نے اخوان المسلمون کے سربراہ محمد بدیع سمیت دیگر سینئر رہنماؤں کے خلاف مقدمے کی ازسرِ نو سماعت کا حکم دے دیا۔

الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق اخوان المسلمون کے سربراہ محمد بدیع کو 2013 میں اس وقت کے صدر محمد مرسی کو فوج کی جانب سے برطرف کیے جانے کے خلاف احتجاج کرنے پر مختلف مقدمات میں سزائے موت اور قید کی سزائیں سنائی گئیں تھیں۔

مصر کی سرکاری خبر ایجنسی مینا کی رپورٹ کے مطابق 7 اکتوبر سے دوبارہ ہونے والا ٹرائل اس مقدمے سے منسلک ہے جس میں محمد بدیع سمیت دیگر 14 اراکین کو جون 2013 میں تنظیم کے ہیڈ کوآرٹر کے قریب اخوان المسلمون کے مخالف مظاہرین کے قتل اور اقدامِ قتل کے جرم میں عمر قید کی سزائیں سنائی گئیں تھیں۔

اخوان المسلمون کے دیگر 4 اراکین کو مذکورہ کیس میں فروری 2015 میں دیے گئے فیصلے میں سزائے موت سنائی گئی تھی۔

مینا ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق نئے الزامات میں سوچی سمجھی سازش کے تحت قتل، اقدامِ قتل اور غیر لائسنس شدہ ہتھیاروں کی موجودگی شامل ہیں۔

مزید پڑھیں: مصر 2013 مظاہرے: 20 شہریوں کی سزائے موت برقرار

تاہم واضح نہیں کہ الزامات میں تبدیلی کیوں لائی گئی لیکن مصر کے قوانین کے مطابق نئے شواہد کی بنیاد پر الزامات میں ترمیم کی جاسکتی ہے۔

قاہرہ کی کرمنل کورٹ کی جانب سے مقدمے کی دوبارہ سماعت کا اطلاق صرف گرفتار شدہ مجرمان پر ہوتا ہے، وہ ملزمان جن کی غیر حاضری میں ٹرائل کیا گیا تھا ان پر یہ حکم لاگو نہیں ہوتا۔

سرکاری خبر ایجنسی کے مطابق اخوان المسلمون کے سینئر رہنما خیرات ال شاطر بھی ان رہنماؤں میں شامل ہیں جن کا دوبارہ ٹرائل لیا جائے گا۔

خیال رہے کہ اس سے قبل ستمبر میں مصر کی ایک عدالت نے ان 20 شہریوں کی سزائے موت برقرار رکھنے کا حکم دیا تھا جن پر 2013 میں سابق صدر محمد مرسی کے خلاف فوجی بغاوت کے دوران احتجاج میں ایک تھانے پر حملہ کرکے 13 پولیس اہلکاروں کو ہلاک کرنے کے الزامات عائد تھے۔

واضح رہے کہ رواں سال کے آغاز میں مصر کی عدالت نے سابق صدر حسنی مبارک کے استعفے کے لیے 2011 میں ہونے والے مظاہروں میں ملوث ہونے پر 75 افراد کو سزائے موت سنائی گئی تھی۔

یاد رہے کہ 2013 میں مصر کے اس وقت کے صدر محمد مرسی کو فوج کی جانب سے حکومت سے باہر کرنے اور گرفتار کرنے کے خلاف قاہرہ میں عوامی احتجاج شدت اختیار کرگیا تھا اور طویل دھرنا دیا گیا تھا۔

اس سے قبل 14 اگست 2013 کو مصری فوج کی جانب سے اس دھرنے کو بزور طاقت منتشر کردیا تھا جس میں 600 سے زائد افراد جاں بحق ہوئے تھے جبکہ مصر نے اخوان المسلمون کو دہشت گرد تنظیم بھی قرار دیا تھا۔

مصر کی حکومت نے اخوان المسلمون کو دہشت گرد تنظیم قرار دینے کے بعد ان کے خلاف بے دردی سے کارروائیاں کیں اور کئی رہنماؤں سمیت ہزاروں کارکنوں کو جیل میں ڈالا اور سزائے موت دی۔

یہ بھی پڑھیں : ’مصر میں ایک اور انسانی المیہ جنم لے سکتا ہے‘

مصر کی ایک عدالت کے جج نے 2014 میں محمد مرسی کے 529 حامیوں کو سزائے موت سنائی تھی۔

انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے مصری حکومت کے ان اقدامات پر شدید تنقید کی گئی اور گرفتار افراد کے خلاف آزادانہ ٹرائل کو یقینی بنانے پر زور دیا گیا۔

2013 میں دھرنے میں عوام کو نشانہ بنانے کی مذمت دنیا بھر کے انسانی حقوق کی تنظمیوں کی جانب سے کی گئی تھی۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ایک رپورٹ میں مصر کی عدالت کے ان فیصلوں کو ‘مضحکہ خیز انصاف ’قرار دیتے ہوئے حکام سے پرامن احتجاج کرنے والے گرفتار شدہ تمام افراد کے خلاف مقدمات ختم کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں