اسلام آباد: انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) نے معیشت کو بہتر خطوط پر استوار کرنے کے لیے پاکستانی حکومت کو آمدنی میں اضافہ کرنے اور خاص کر سرکاری اداروں کے بنیادی ڈھانچوں میں غیر معمولی اصلاحات کرنے کی تجویز دی ہے۔

پاکستان کے دورے پر موجود آئی ایم ایف کے وفد نے ہیرلڈ فنگر کی سربراہی میں وزارت خزانہ اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے اعلیٰ افسران سے تفصیلی ملاقاتیں کیں، جس میں سیکریٹری خزانہ اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے چیئرمین نے شرکت کی۔

امکان ہے کہ اب یہ بات چیت پالیسی تشکیل دینے کے مرحلے میں داخل ہوجائے گی جس کے لیے وزیر خزانہ اسد عمر خود آئی ایم ایف کے وفد سے ضروری مشاورت کریں گے۔

یہ بھی پڑھیں: آئی ایم ایف اور حکومت کے مابین مشاورت کا آغاز

ذرائع کا کہنا ہے کہ وفد نے منی بجٹ میں ریونیو کے لیے اٹھائے گئے اقدامات پر تحفظات کا اظہار کیا اور اس امر کی نشاندہی کی کہ مالی خسارے کو 5.1 فیصد کی شرح تک محدود رکھنے کے لیے یہ اقدامات ناکافی ہیں۔

دوسری جانب آئی ایم ایف نے حکومت سے دنیا میں بڑھتی ہوئی تیل کی قیمتوں اور عالمی اقتصادی صورتحال پر بھی نظر رکھنے کا کہا، جو برآمدات کے لیے حوصلہ افزا بات نہیں۔

ذرائع نے کہا کہ حکومت کا زیادہ تر انحصار اپنے ’دوست ممالک‘ پر ہے اور اسے امید ہے کہ ان کی معاونت سے ابتدائی 100 دنوں کے دوران آئی ایم ایف کے پاس جانے کی نوبت نہیں آئے گی۔

مزید پڑھیں: حکومت کا فوری طور پر آئی ایم ایف سے رجوع کرنے کا کوئی ارادہ نہیں، اسد عمر

اس سلسلے میں ایک اعلیٰ سرکاری عہدیدار کا کہنا تھا کہ 'ہمیں آئی ایم ایف کی ضرورت پیسے سے زیادہ ساکھ کے لیے ہے کیونکہ ساکھ کی بنیاد پر ہی دیگر شراکت دار بین الاقوامی مالیاتی منڈیوں میں پاکستان پر بھروسہ کر سکیں گے۔'

آئی ایم ایف سے رجوع کرنے کے سلسلے میں انہوں نے اس قسم کے کسی فوری منصوبے کو خارج از امکان قرار دیا اور کہا کہ دسمبر سے قبل اس قسم کے کسی اقدام کی توقع نہیں۔

عہدیدار کا مزید کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کے وفد نے مختلف اداروں سے اعداد و شمار اکٹھا کر کے مالیاتی اشاروں بالخصوص بحران کا شکار شعبہ توانائی، پاک ۔ چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کے منصوبوں کی تفصیلات، حکومت کی اصلاحاتی نظام کی منصوبہ بندی جس میں خسارے میں چلنے والے سرکاری اداروں پاکستان اسٹیل ملز، پی آئی اے، گیس کی 2 پیداواری کمپنیوں او جی ڈی سی ایل اور پی پی ایل اور شعبہ توانائی کے اداروں کی نجکاری شامل ہے، پر مشاورت مکمل کرلی۔

اس سلسلے میں حکام نے آئی ایم ایف کے وفد کو شعبہ توانائی کے حالیہ اعداد و شمار سے آگاہ کیا جس میں اسے درپیش مالی و تکنیکی نقصانات کا تفصیلی ذکر کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں توانائی کے شعبے میں سرمایہ کاری کیلئے سعودی عرب کی دلچسپی

اس کے علاوہ حکومت کی جانب سے وفد کو 45 ارب ڈالر کی 5 سالہ تجارتی پالیسی کے منصوبے کے بارے میں بھی بریفنگ دی گئی جس کا اختتام 2023 میں ہوگا اور آئندہ چند روز میں کابینہ اس کی منظوری دے گی۔

اس پالیسی منصوبے میں برآمداتی مصنوعات کو گیس کی قیمتوں میں حالیہ اضافے سے محفوظ رکھنے اور بجلی کی قیمتوں میں اضافے کے اثر سے بچانا بھی شامل ہے۔


یہ خبر 2 اکتوبر 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

تبصرے (0) بند ہیں