میانمار کی رہنما آنگ سانگ سوچی کو کینیڈا کی جانب سے دی گئی اعزازی شہریت منسوخ کردی گئی جس کے بعد وہ اس اعزاز سے برطرف ہونے والی دنیا کی پہلی شخصیت بن گئیں۔

خبررساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق کینیڈین پارلیمنٹ نے روہنگیا مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کے پیشِ نظر میانمار کی حکمران آنگ سان سوچی کی اعزازی شہریت واپس لینے کا فیصلہ کیا تھا۔

بعد ازاں کینیڈین سینیٹ کی جانب سے سوچی کی شہریت واپس لیے جانے کی ووٹنگ کے بعد شہریت واپس لینے کا حتمی فیصلہ کیا گیا ۔

گزشتہ ماہ کینیڈا کے اراکینِ پارلیمنٹ نے ایک قرارداد پاس کی تھی جس میں روہنگیا مسلمانوں کے خلاف جرائم کو نسل کشی قرار دیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں : کینیڈا کا آنگ سان سوچی سے اعزازی شہریت واپس لینے کا فیصلہ

واضح رہے کہ کینیڈا نے سال 2007 میں آنگ سان سوچی کو اعزازی شہریت سے نوازا تھا،اور دنیا کی محض 6 شخصیات کو یہ اعزازی شہریت حاصل ہے جن میں دلائی لامہ، نیلسن منڈیلا اور پاکستان کی طالبہ ملالہ یوسف زئی بھی شامل ہیں۔

روہنگیا کی نسل کشی کے واقعات سامنے آنے پر بین الاقوامی برادری نے آنگ سان سوچی پر دباؤ ڈالا تھا کہ وہ میانمار فوج کی ان ظالمانہ کارروائیوں کی مذمت کریں لیکن انہوں نے انکار کردیا تھا۔

یاد رہے کہ گزشتہ برس ستمبر میں روہنگیا مسلمانوں کے خلاف کریک ڈاﺅن کے بعد دنیا بھر سے ہزاروں افراد نے نوبل کمیٹی نے جمہوریت پسند رہنماءآنگ سان سوچی سے امن انعام واپس لینے کے مطالبے کے لیے آن لائن پٹیشن پر دستخط کیے تھے لیکن نوبل انعام واپس نہیں لیا گیا تھا۔

آنگ سان سوچی کو 1991 میں نوبل امن انعام سے نوازا گیا تھا جن کی جماعت کی حکومت اس وقت وہاں قائم ہے۔

یہ بھی پڑھیں : روہنگیا تنازع: ’آنگ سان سوچی کو مستعفی ہوجانا چاہیے تھا‘

تاہم آنگ سان سوچی کے امن نوبل انعام کے حوالے سے نوبل انسٹیٹوٹ کے سربراہ اولاو نجولسٹیڈ نے کہا تھا جب ایک بار کسی کو نوبل انعام دے دیا جائے تو اسے واپس لینا ناممکن ہے۔

خیال رہے کہ میانمار جو کہ برما بھی کہلاتا ہے کہ اس کی 90 فیصد آبادی بدھ پرست ہے او ر یہاں دیگر مذہبی گروہوں کو غیر ملکی تصور کیا جاتا ہے۔

میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کے خلاف کریک ڈاؤن کے باعث اگست 2017 سے اب تک 7 لاکھ سے زائد روہنگیا افراد نقل مکانی کر کے بنگلہ دیش جا چکے ہیں، جبکہ اس عرصے میں ہزاروں افراد کو قتل بھی کیا گیا ہے۔

رواں برس اگست میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تحقیقاتی ٹیم نے روہنگیا کے مسلمانوں کی نسل کشی کرنے پر میانمار کے اعلیٰ فوجی حکام کے خلاف مقدمات قائم کرنے کا مطالبہ بھی کیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں