کینیڈین پارلیمنٹ نے روہنگیا مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کے پیشِ نظر میانمار کی حکمران آنگ سان سوچی کی اعزازی شہریت واپس لینے کا فیصلہ کرلیا۔

برطانوی نشریاتی ادارے 'بی بی سی' کی رپورٹ کے مطابق ایوانِ نمائندگان میں پیش کی جانے والی قرار داد سے ایک روز قبل ہی وزیر اعظم جسٹس ٹروڈو نے بیان دیا تھا کہ پارلیمنٹ میں یہ معاملہ زیرغور ہے کہ آیا آنگ سان سوچی اب بھی اعزازی شہریت کی مستحق ہیں یا نہیں۔

تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس سے لاکھوں روہنگیا مسلمانوں کی حالتِ زار میں بہتری نہیں آئے گی۔

قطر کے سرکاری ٹی وی 'الجزیرہ' کی رپورٹ میں کہا گیا کہ اس سے ایک ہفتہ قبل ہی کینیڈا کے اراکینِ پارلیمنٹ نے ایک قرارداد پاس کی تھی جس میں روہنگیا مسلمانوں کے خلاف جرائم کو نسل کشی قرار دیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: عالمی برادری روہنگیا بحران پر خاموش نہیں رہے گی، برطانیہ

اس بارے میں گفتگو کرتے ہوئے وزیر خارجہ کرسٹیا فری لینڈ کے ترجمان ایڈم آسٹین کا کہنا تھا کہ کینیڈا کی پارلیمنٹ کی جانب سے آنگ سان سوچی سے اعزازی شہریت واپس لینے کا فیصلہ روہنگیا کی نسل کشی کی مذمت سے مسلسل انکار کے پیشِ نظر کیا گیا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد فراہم کر کے روہنگیا کی مدد کرتے رہیں گے۔

اس کے ساتھ انہوں نے مطالبہ کیا کہ میانمار کے جرنیلوں پر پابندی لگائی جائے اور اس میں جو بھی ملوث ہیں انہیں بین الاقوامی ادارے کے سامنے کٹہرے میں لایا جائے۔

قرارداد پیش کرنے والے رکنِ پارلیمنٹ گیبریئل ماری کا صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ میرے خیال میں یہ ووٹ ایک بہترین نمونہ ہے۔

مزید پڑھیں: ‘مجھے اپنے بچوں کی آنکھوں میں روہنگیا بچوں کے چہرے نظر آتے ہیں‘

اس حوالے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ٹویٹ کرتے ہوئے پاکستانی نژاد کینیڈین رکنِ پارلیمنٹ سلمیٰ زاہد کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ نے متفقہ طور پر میانمار کی حکمران آنگ سان سوچی سے اعزازی شہریت واپس لینے کا فیصلہ کیا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ آنگ سان سوچی کا اپنے ملک میں روہنگیا کی نسل کشی کے خلاف کوئی اقدام نہ کرنا انتہائی مایوس کن اور ناقابلِ معافی ہے۔

واضح رہے کہ کینیڈا نے سال 2007 میں آنگ سان سوچی کو اعزازی شہریت سے نوازا تھا اور دنیا کی محض 6 شخصیات کو یہ اعزاز حاصل ہوا ہے جس میں دلائی لامہ، نیلسن منڈیلا اور پاکستان کی طالبہ ملالہ یوسف زئی بھی شامل ہیں۔

خیال رہے کہ 2015 میں آنگ سان سوچی میانمار کی اسٹیٹ کونسلر کے منصب پر فائز ہوئی تھیں جبکہ 1991 میں انہیں میانمار میں، جو برما بھی کہلایا جاتا ہے، فوجی حکومت کے خلاف جمہوریت کے لیے جدوجہد کرنے پر امن کے نوبیل انعام سے بھی نوازا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: روہنگیا نے اقوام متحدہ سے نسل کشی کی تحقیقات کا مطالبہ کردیا

یاد رہے کہ گزشتہ برس تقریباً 7 لاکھ روہنگیا مسلمان برمی فوج کی جانب سے برپا کیے جانے والے مظالم کے سبب ہجرت کر کے بنگلہ دیش میں پناہ گزین ہوگئے تھے۔

روہنگیا کی نسل کشی کے واقعات سامنے آنے پر بین الاقوامی برادری نے آنگ سان سوچی پر دباؤ ڈالا تھا کہ وہ میانمار فوج کی ان ظالمانہ کارروائیوں کی مذمت کریں لیکن انہوں نے انکار کردیا۔

خیال رہے کہ میانمار میں اب بھی فوج کو بے پناہ طاقت حاصل ہے اور داخلہ، خارجہ اور دفاع کے معاملات فوج ہی کے دائرہ کار میں ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں