وفاقی وزیر اطلاعات اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما فواد چوہدری اور مسلم لیگ (ن) سینیٹر مشاہد اللہ خان کے درمیاں تلخیاں ختم نہ ہو سکیں، فواد چوہدری نے ایوان بالا میں آکر ایک مرتبہ پھر مشاہد اللہ خان پر تنقید کی تو اپوزیشن نے شدید احتجاج کرتے ہوئے واک آؤٹ کیا۔

سینیٹ کا اجلاس شروع ہوا تو اپوزیشن نے فواد چوہدری کی جانب سے دیئے گئے بیان پر معافی مانگنے کا مطالبہ کیا لیکن انہوں نے معافی مانگنے سے انکار کردیا۔

سینیٹ میں وزیر اطلاعات اور مشاہد اللہ خان کے درمیاں لفظوں کی جنگ جاری رہی، جس کے بعد ایوان میں ہنگامہ کھڑا ہوگیا۔

چیئرمین سینیٹ نے فواد چوہدری کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ پہلے آپ معافی مانگیں، جس پر انہوں نے استفسار کیا کہ معافی کس چیز کی؟

چیئرمین سینیٹ کا کہنا تھا کہ یہ طریقہ درست نہیں، جس پر فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ آپ مجھے بات تو کرنے دیں۔

اس موقع پر مشاہدہ اللہ خان سمیت اپوزیشن کے دیگر ارکان نے ایوان بالا میں شدید احتجاج کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ فواد چوہدری کو ایوان سے باہر نکالا جائے۔

جس پر فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ میں نے ایوان میں معذرت کی تو سوشل میڈیا پر تنقید ہوئی، مجھے وضاحت تو دینے دیں، اس کے علاوہ انہوں نے استفسار کیا کہ میں نے کیا کہا تھا جو معذرت کروں؟ میں نے تو 2 بھائیوں کی بات کی تھی۔

مزید پڑھیں: مسلم لیگ (ن) کا فواد چوہدری کے سینیٹ میں آنے پر پابندی کا مطالبہ

اپوزیشن نے شدید احتجاج کرتے ہوئے سینیٹ کی کارروائی سے واک آؤٹ کیا، جس پر چیئرمین سینیٹ نے کارروائی مختصر وقت کے لیے معطل کردی۔

بعد ازاں چیئرمین سینیٹ نے وزیر اطلاعات کو چیمبر میں طلب کیا۔

اجلاس دوبارہ شروع ہوا تو بھی دونوں جانب سے تلخ جملوں کا تبادلہ نہ رک سکا اور وزیر اطلاعات کی جانب سے تقریر کا دوبارہ آغاز کرنے پر اپوزیشن ارکان نے چیئرمین سینیٹ کے سامنے کھڑے ہوکر احتجاج کیا۔

فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ میرا کوئی ذاتی مسئلہ نہیں ہے، پاکستان کے خزانے کے ساتھ کھلواڑ جو ہوا ہے اس کی بات کی، بعد ازاں وزیر اطلاعات نے ایوان سے معذرت کرلی۔

وزیر اطلاعات فواد چوہدری اور سینیٹر مشاہد اللہ خان کے درمیاں تلخ جملوں کے باعث سیکیورٹی عملہ بھی ایوان میں پہنچا، جس کے بعد ہنگامے کے باعث سینٹ کا اجلاس جمعہ کی صبح ساڑھے 10 بجے تک کے لیے ملتوی کردیا گیا۔

سینیٹ اجلاس کے بعد میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے وفاقی وزیر اطلاعات نے مشاہدہ اللہ خان پر تنقید کرتے ہوئے ان کی اور ان کے خاندان کے کچھ افراد کی پی آئی اے میں ملازمت کی تفصیلات بتائیں۔

خیال رہے کہ 28 ستمبر 2018 کو مسلم لیگ (ن) نے وزیر اطلاعات فواد چوہدری پر سینیٹ میں آنے پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔

سینیٹ کے اجلاس کے دوران اپوزیشن کی جانب سے وزیر اطلاعات فواد چوہدری کے قومی اسمبلی میں بیان کی مذمت کی گئی تھی۔

مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر جاوید عباسی نے کہا کہ کل قومی اسمبلی میں کی گئی بات پر پاکستان کا ہر آدمی شرمندہ تھا، لوگ شرمندہ تھے کہ ہمارے پارلیمان میں ایسی باتیں ہوتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ مدینہ کی ریاست میں بننے والے وزرا کا یہ رویہ ہے؟ وزیر کے بیان سے اس ایوان کی تضحیک ہوئی ہے۔

واضح رہے کہ اس سے قبل قومی اسمبلی کے اجلاس میں ریڈیو پاکستان میں مالی بحران پر بات کرتے ہوئے وزیر اطلاعات فواد چوہدری کہا تھا کہ ’30 سال کے تجربہ کاروں نے ملک کا بیڑہ غرق کردیا، سابق حکمرانوں نے قومی خزانے کو ایسے لٹایا جیسے ڈاکو ڈانس پارٹی میں لٹاتے ہیں‘۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان اسٹیل ملز،ریڈیو پاکستان اور پاکستان ٹیلی وژن کو تباہ کردیا گیا،عوام کے پیسے لوٹنے والوں کو کڑی سزا دینی چاہیے۔

تبصرے (0) بند ہیں