لکھاری ڈان اخبار کے اسٹاف ممبر ہیں۔
لکھاری ڈان اخبار کے اسٹاف ممبر ہیں۔

حکومت کی جانب سے ادائیگیوں کے بگڑتے ہوئے توازن کو حل کرنے کے لیے سمت کے تعین میں قیمتی وقت برباد ہو رہا ہے۔ جب پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) اقتدار میں آئی تھی تو وزیرِ خزانہ اسد عمر نے قوم سے معاشی صورتحال بشمول گرتے ہوئے زرِ مبادلہ کے ذخائر کے حوالے سے ایک مضبوط پالیسی کے اعلان کے کے لیے ستمبر کے اواخر تک انتظار کرنے کے لیے کہا تھا۔

مختلف ٹی وی چینلز پر گزشتہ چند دنوں کے دوران دیے گئے عوامی بیانات میں اب وہ کہتے ہیں کہ انہیں تمام آپشنز پر مکمل غور کرنے کے لیے مزید 10 دنوں کی ضرورت ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ ان دنوں مشورے جاری ہیں جو کہ آسانی سے بیل آؤٹ پیکج کے لیے مذاکرات کا راستہ ہموار کر سکتے ہیں جبکہ سعودی عرب سے کی گئی تعاون کی درخواستیں ابھی زیرِ غور ہیں۔ چین کا دورہ کچھ دنوں میں شروع ہوگا جہاں تعاون کی ایک اور درخواست کی جائے گی۔ ان تمام رابطوں کا نتیجہ جب نکلے گا تو وہ وزیرِ اعظم کو لائحہءِ عمل کی تجویز دینے کی پوزیشن میں ہوں گے۔

یہ بذاتِ خود ایک مسئلہ نہیں ہے۔ صورتحال فی الوقت اتنی سنجیدہ نہیں کہ مزید 10 دن انتظار کرنا ناممکن ہو۔ مسئلہ اُن آپشنز کی نوعیت ہے جو کہ اس وقت زیرِ غور ہیں یعنی سعودی عرب کی جانب سے تیل کے شعبے میں تعاون اور چین کی جانب سے ادائیگیوں کے توازن میں سہارے جیسی دو طرفہ معاونت۔ اگر مارچ میں جاری کی گئی آئی ایم ایف کی آخری رپورٹ کے اندازوں پر یقین کیا جائے تو انہیں پورے مالی سال میں 27 ارب ڈالر کا ہدف حاصل کرنا ہوگا۔ اس میں سے کچھ 15 ارب ڈالر تو پائپ لائن میں ہیں جبکہ تقربیاً 12 ارب ڈالر کا انتظام اب بھی نہیں ہو پایا ہے۔

پڑھیے: نئے دربار کی سمت آخر کیا ہے؟

ایسا بندوبست ممکن ہے جس میں اس دولت کا ایک حصہ دو طرفہ ذرائع مثلاً سعودی عرب اور چین سے آ جائے جبکہ باقی کا آئی ایم ایف سے حاصل کر لیا جائے۔ سوال اب یہ ہے کہ کتنا کہاں سے آئے گا اور وزیرِ خزانہ کے مطابق وہ اسی پر کام کر رہے ہیں۔

یہ تب مسئلہ بن جائے گا جب دوسرے فریقوں کو ایک دو طرفہ 'سافٹ لون' پر راضی کرنے کا مرحلہ تاخیر کا شکار ہوجائے۔ ایسی صورتحال میں جواب ہمیں آسانی سے ہمیشہ دوسری جانب نظر آئے۔ مثال کے طور پر سعودیوں کے ساتھ بات چیت کا نتیجہ کوئی ایسے تاریخی نتائج کی صورت میں نکلتا ہوا نظر نہیں آ رہا جس کی توقع کرنے کے لیے ہم سے کہا جا رہا تھا۔ تیل کے شعبے میں کوئی سہولت شاید آ جائے مگر اس کا امکان نہایت کم ہے کہ وہ خاصے سائز کی ہوگی (یعنی ایک سال کے لیے ہماری خام تیل کی آدھی درآمدات کو بھی پورا کرنے جتنی شاید نہ ہو۔)

سعودی سلطنت کو سی پیک میں لانے کی پوری کوشش اب بھی تعطل کا شکار نظر آتی ہے۔ یہ شروع سے ہی خاصی معقول نظر نہیں آ رہی تھی۔ سی پیک میں شامل ہونے کا آخر مطلب کیا ہے؟ چینی تناظر میں دیکھے تو اس کا مطلب سلک روڈ فنڈ کے تحت قرض کی مخصوص سہولیات تک رسائی شامل ہے۔ تو جب حکومت اعلان کرتی ہے کہ کسی ملک نے سی پیک میں شامل ہونے پر رضامندی ظاہر کر دی ہے تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ اب اس ملک کے کاروبار اور کمپنیاں سلک روڈ فنڈ کے وسائل تک رسائی حاصل کر سکیں گی؟

ظاہر ہے کہ نہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ ایسا ہوا ہوگا: وہ سعودی عرب کے پاس بیل آؤٹ مانگنے کے لیے گئے ہوں گے اور جب انہیں کسی قسم کی یقین دہانی نہیں مل پائی ہوگی تو وہ پلان بی پر آ گئے ہوں گے یعنی سعودیوں سے پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے کی درخواست کرنا۔ پلان بی پر سعودی عرب کو راضی کرنے کے لیے انہوں نے سی پیک کا نام لیا ہوگا، گوادر اور کچھ دیگر منصوبوں بشمول تیل کی تلاش اور ریکوڈک میں موجود تانبے اور سونے کی کانیں گنوائی ہوں گی۔ اس پر سعودی عرب راضی ہوا اور اس نے ایک وفد بھیج دیا جو کہ اب سامنے موجود مختلف آپشنز کا جائزہ لے رہا ہے۔

مزید پڑھیے: آئی ایم ایف کا حکومت سے ریونیو میں اضافہ کرنے کا مطالبہ

ظاہر ہے کہ اس میں سے کوئی بھی چیز ادائیگیوں کے توازن میں مدد نہیں دے گی چنانچہ یہ بیل آؤٹ سے ایک بالکل مختلف بحث ہے۔ اور اب ہم سن رہے ہیں کہ اس ماہ کے اواخر میں مزید دورے ہوں گے۔ پارٹی کے کچھ جذباتی افراد تو یہاں تک کہہ رہے ہیں کہ شاید شاہ سلمان بنفسِ نفیس دورے پر آ جائیں۔

تو یہ مذاکرات کب تک مکمل ہوں گے اور حکومت کے پیر کب مضبوط ہوں گے؟ اس وقت تک تو حکومتی ارکان کی بھی گفتگو ایسے لگ رہی ہے جیسے وہ اپوزیشن میں ہوں اور ہمیں حیرت ہوتی ہے کہ یہ لوگ حکمراں جماعت کا روپ کب اختیار کریں گے؟ مثال کے طور پر وزیرِ منصوبہ بندی خسرو بختیار کی پریس کانفرنس کو دیکھیں جس میں وہ وزیرِ اطلاعات فواد چوہدری کے ساتھ بیٹھے ہوئے ہیں۔

اپوزیشن سے حکمراں جماعت بننے کے اس سفر میں مالیاتی اور بیرونی شعبوں میں وہ تبدیلیاں بھی لانی ہوں گی جن کے لیے ابھی تک ہمارے پاس کوئی روڈ میپ نہیں ہے۔ یہ تحریر لکھنے کے وقت تک اسد عمر پارلیمنٹ میں بجٹ پیش کرتے ہوئے اپوزیشن کے ساتھ جملوں کے تبادلے میں مصروف نظر آئے۔ کچھ جملے تو فطانت سے بھرپور تھے جیسا کہ شیر کا سکڑ کر بلی بن جانا۔ مگر اصلی جملوں کا تو تبادلہ تب ہوگا جب بجٹ میں پیش کیے گئے اقدامات کو مزید سہارا دیا جائے گا، جس کی اس وقت ضرورت ہے۔

یہ تقریباً ناگزیر ہے۔ زیادہ تر چیزیں جن پر ان کا بھروسہ ہے، مثلاً شاہانہ خرچ کرتے نظر آنے والے مگر ٹیکس فائل نہ کرنے والے لوگوں کو نوٹس جاری کرنا ایسے اقدامات ہیں جو پہلے ہی آزمائے جا چکے ہیں۔ یہ محصولاتی اقدامات نہیں کہلائے جا سکتے کیوں کہ ان کے نتائج ملنے میں وقت لگتا ہے۔ مگر یہ نافذ کرنے کے اچھے اقدامات ہیں تاکہ ٹیکس کی مشینری حرکت میں آئے اور عوام کی ٹیکس فائل کرنے کے لیے حوصلہ افزائی ہو۔

پڑھیے: پاکستان میں سعودی عرب کی بھاری سرمایہ کاری کا امکان

مزید رد و بدل بھی ضروری ہوجائے گا کیوں کہ اگر اصلاحات میں تاخیر ہوئی تو ایک گھن چکر شروع ہو سکتا ہے۔ کرنسی کی قدر میں مزید کمی اس وقت تقریباً یقینی ہے جس سے مالیاتی وسائل پر درآمدی تیل اور بیرونی قرضوں کی ادائیگی کا بوجھ مزید بڑھے گا۔

تو ہاں ابھی بھی متبادل آپشنز پر غور کرنے کا وقت ہے مگر جن آپشنز پر غور کیا جا رہا ہے وہ دور کے سہانے ڈھول ہیں جبکہ تاخیر کی قیمت بہت زیادہ ہے۔

اب وقت ہے کہ حکومت اس بات کا احساس کرے کہ وہی اقتدار میں ہیں اور ماضی میں کارکردگی نہ دکھانے کے طعنے دینے کا وقت گزر چکا ہے۔ اب کارکردگی دکھانے کی باری ان کی ہے اور یہ جتنا جلدی ہو سکے ہم سب کے لیے اتنا ہی اچھا ہوگا۔

یہ مضمون ڈان اخبار میں 4 اکتوبر 2018 کو شائع ہوا۔

انگلش میں پڑھیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں