پاکستان کوچھپائی گئی دولت اور عالمی سطح پر ٹیکس چوری کے خاتمے کے لیے جاری مہم کے سلسلے میں معلومات کے حصول میں ٹیکس چوروں کی محفوظ پناہ گاہ سمجھے جانے والے 11 ممالک کی جانب سے مشکلات کا سامنا ہے۔

تنظیم برائے معاشی تعاون و ترقی (او سی سی ڈی) کے تحت معلومات کے تبادلے کا خود کار نیا پروگرام یکم ستمبر سے نافذ ہوچکا ہے جس میں 101 سے زائد ممالک مالی معلومات کے تبادلے کے لیے اتفاق کر چکے ہیں۔

مالی معاملات میں تبادلے کے شراکت دار ممالک کی فہرست کو حتمی شکل دینے کے لیے رکن ممالک کو مذاکرات میں چند برس صرف ہوئے۔

اس فہرست میں شامل چند ممالک نے پاکستان کو معلومات فراہم کرنے پر رضامندی ظاہر نہیں کی جن میں انگولا، بہاماس، بارباڈوس، برمودا، برٹس ورجن آئس لینڈز، سیمان آئس لینڈز، ہانگ کانگ، موریشش، نیو پاناما اور سیمونا شامل ہیں۔

پاکستان اس وقت تین لیکس کی دستاویزات کی تفتیش کر رہا ہے جس میں دو ٹیکس ہیونز پاناما اور بہاماس کے متعلق ہیں جنہوں نے نئے ٹیکس کنونشن کے تحت پاکستان کو خودکار معلومات دینے کی پیش کش نہیں کی۔

مزید پڑھیں:نیب کا پاناما پیپرز میں شامل ناموں کے خلاف تحقیقات کا فیصلہ

لیکس میں صرف ان افراد کے نام دیے گئے ہیں جنہوں نے ٹیکس کے محفوظ پناہ گاہ ممالک میں سرمایہ کاری کر رکھی ہے لیکن حکام کو ان افراد کے اثاثوں کی تفصیلات حاصل کرنا ایک چیلنج ہے جن کی تفصیلات لیکس میں شامل نہیں ہیں۔

پاکستان کو جن ممالک نے ٹیکس چھپانے کے لیے سرمایہ کرنے والے افراد کی تفصیلات دینے پر رضامندی ظاہر کی ہے ان ممالک میں کیورا ساؤ، قبرص، ائرلینڈ، جرسی، لیکسمبرگ، نیدرلینڈز، سیچلیس اور سنگاپور شامل ہیں۔

برٹش ورجن آئس لینڈز، کوک آئس لینڈز، سنگاپور، نیدرلینڈز، برطانیہ، متحدہ عرب امارات اور سوئٹزرلینڈ میں دولت چپھانے کے حوالے سے کئی خبریں زیر گردش رہی ہیں اور چند ممالک نے کنونشن کے مطابق کے پاکستان کو معلومات فراہم کرنے کی منظوری دی ہے لیکن سوئس بینکوں سے پاکستانیوں کی دولت واپس لانے کا خواب بدستور ادھورا رہے گا۔

یہ بھی پڑھیں:پاناما لیکس: وزیراعظم سے تحقیقات کا مطالبہ برقرار

سوئٹزرلینڈ نے تاحال پاکستان کو او ای سی ڈی کنونشن کے تحت کسی بھی بینک اکاؤنٹ کی تفصیلات خودکار معلومات کے تحت تبادلے کی پیش کش نہیں کی گوکہ سوئٹزلینڈ نے بھارت سمیت 60 ممالک کو اس کنونشن کے تحت اس کی پیش کش کی ہے۔

ڈان کو فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے ترجمان ڈاکٹر محمداقبال نے بتایا کہ ایف بی آر نے سوئٹزرلینڈ کو او ای سی ڈی کنونش کے تحت پاکستان کو خود کار معلومات کے تبادلے کی درخواست کرتے ہوئے دو خطوط ارسال کردیا ہے۔

مزید پڑھیں:پیراڈائز لیکس کی تفتیش ایف بی آر کیلئے چیلنج ہے، مشیرریونیو

انہوں نے اعتراف کیا کہ سوئٹزرلینڈ نے اس طرح کی دستاویزات کے حوالے سے پاکستان کے نظام پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ایف بی آر نے سوئس حکام کو آگاہ کیا ہے کہ ایف بی آر میں اب یہ نظام متعارف کرادیا گیا ہے اور ‘ہمیں توقع ہے کہ سوئٹزلینڈ ہمیں معلومات فراہم کرے گا’۔

ان ممالک کو تفصیلات دینے پر آمادہ کرنے میں ناکامی کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ وہ دیگر ممالک کو بھی بڑی پیمانے پر معلومات فراہم کررہے ہیں اور باقی ممالک بھی ان سے رابطے میں ہیں۔

ترجمان ایف بی آر نے کہا کہ اصل مسئلہ دستاویزات کے طریقہ کار کا ہے ‘ہم دیگر ممالک سے معلومات حاصل کر رہے ہیں’۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان رواں سال 38 ممالک کو دستاویزات فراہم کرے گا جبکہ یک طرفہ طور پر 10 ممالک سے معلومات حاصل کی جاچکی ہیں اور اگلے سال ستمبر تک مزید 17 ممالک پاکستان کو معلومات سے آگاہ کریں گے جبکہ دیگر 3 ممالک ستمبر 2020 تک معلومات دیں گے۔

خیال رہے کہ ایف بی آر نے اس عمل میں شامل کیسز کے حوالے سے خود کار معلومات کے لیے 6 زون ترتیب دیے ہیں، یہ زونز ملک کے مختلف علاقوں میں ریجنل ٹیکس دفاتر (آر ٹی او) میں قائم کیے گئے ہیں اور یہاں متعلقہ کیسز پر کام کیا جائے گا۔

ان لینڈ ریونیو کے 6 کمشنرز کو فوکل پرسنز تعینات کیا جائے گا جو غیر رہائشیوں کے حوالے سے بینکوں سے دستاویزات حاصل کریں گے۔

ایف بی آر کے ہیڈکوارٹر میں معلومات کے حصول اور دستاویزات کی چھان بین کے لیے بھی ایک سینٹر بنایا گیا ہے جہاں شفافیت کو یقینی بنانے کے چند مخصوص افسران کی رسائی ہوگی۔


یہ خبر 7 اکتوبر 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں