افغانستان میں خودکش حملہ، انتخابی امیدوار سمیت 8 افراد ہلاک

09 اکتوبر 2018
لشکر گاہ میں خود کش حملے کے بعد عوام جائے وقوعہ کا جائزہ لے رہے ہیں— فوٹو: اے پی
لشکر گاہ میں خود کش حملے کے بعد عوام جائے وقوعہ کا جائزہ لے رہے ہیں— فوٹو: اے پی

افغانستان میں پارلیمانی انتخابات کی مہم کے دوران خود کش حملے کے نتیجے میں انتخابی امیدوار سمیت 8 افراد ہلاک ہو گئے۔

صوبہ ہلمند کے گورنر کے ترجمان عمر زھاک نے غیر ملکی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ حملہ آور نے افغانستان کے جنوبی شہر لشکر گاہ میں صالح محمد آسکزئی کی انتخابی مہم کے دفتر میں خود کو دھماکے سے اڑا لیا جس کے نتیجے میں 11 افراد زخمی بھی ہوئے۔

مزید پڑھیں: افغانستان میں انتخابی ریلی پر خودکش حملہ، 13 افراد ہلاک

نوجوان صالح نے پہلی مرتبہ انتخابات میں حصہ لیا تھا اور انہوں نے الیکشن کے دوران 'مثبت تبدیلی' کا نعرہ لگایا تھا۔

ابھی تک کسی نے بھی اس حملے کی ذمے داری قبول نہیں کی لیکن 2001 میں امریکا کی افغانستان پر فوج کشی کے بعد ہلمند طالبان کا اہم مرکز رہا ہے اور ممکنہ طور پر طالبان ہی اس حملے میں ملوث ہوسکتے ہیں۔

صدر اشرف غنی نے حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ افغان عوام جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں اور دہشت گردوں کو انتخابی عمل کو روکنے نہیں دیں گے۔

یاد رہے کہ ایک دن قبل ہی طالبان نے انتخابات کو 'بوگس' عمل قرار دیتے ہوئے انہیں نشانہ بنانے کا اعلان کیا تھا اور امیدواروں کو خبردار کیا تھا وہ اس سے دور رہیں۔

یہ بھی پڑھیں؛ افغانستان: طالبان کے حملے میں پولیس چیف سمیت 17 اہلکار ہلاک

طالبان نے ان انتخابات کو 'امریکی سازش' قرار دیتے ہوئے ووٹرز سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ انتخابات کا بائیکاٹ کریں اور طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا تھا کہ شدت پسند انتخابی عمل میں رکاوٹ ڈالنے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیں گے۔

یاد رہے کہ 28 ستمبر سے انتخابی مہم شروع ہونے کے بعد سے یہ انتخابی مہم پر دوسرا حملہ ہے ، جہاں اس سے قبل گزشتہ ہفتے دو اکتوبر کو صوبہ ننگر ہار میں ریلی پر حملے کے نتیجے میں 13افراد ہلاک اور 40 سے زائد زخمی ہو گئے تھے۔

مذکورہ حملے کی ذمے داری داعش نے قبول کی تھی جس میں خوش قسمتی سے انتخابی امیدوار بچ گئے تھے۔

20اکتوبر کو ہونے والے انتخابات میں ڈھائی ہزار سے زائد امیدوار حصہ لیں گے لیکن انتخابات کے قریب آتے ہی ہر گزرتے دن کے ساتھ پرتشدد واقعات کا خطرہ بڑھتا جا رہا ہے۔

آئندہ سال ہونے والے صدارت یانتخاب سے قبل یہ پارلیمانی انتخابات ایک بہت بڑا امتحان ہیں اور گزشتہ چند ماہ کے دوران ہونے والے حملوں کے بعد یہ بحث بھی جنم لے چکی ہے کہ ایسی صورتحال میں انتخابات ہونے چاہئیں یا نہیں۔

مزید پڑھیں: افغانستان: طالبان کے حملوں میں سیکیورٹی فورسز کے 52 اہلکار ہلاک

افغانستان کے پارلیمانی انتخابات پہلے ہی تین سال تاخیر سے منعقد ہو رہے ہیں اور بیورو کریسی کی نااہلی، انڈسٹریل سطح پر فراڈ اور عین موقع پر ووٹرز کی بایو میٹرک تصدیق کے مطالبے سامنے آنے کے بعد انتخابی عمل کے ایک مرتبہ پھر تعطل کا شکار اور پٹڑی سے اترنے کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔

الیکشن کے دن 5ہزار پولنگ اسٹیشنز پر افغانستان سیکیورٹی فورسز کے 54ہزار اراکین خدمات سرانجام دیں گے لیکن طالبان اور داعش کے بڑھتے حملوں کو دیکھتے ہوئے انتخابات کو محفوظ بنانے کے حوالے سے ان کی اہلیت پر سوالیہ نشان موجود ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں