ضمنی انتخابات: موروثیت کے گہرے سائے اور کچھ اُمید کی کرنیں

اپ ڈیٹ 16 اکتوبر 2018
موروثی سیاست کا غلبہ رہا، قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے 35 حلقوں میں اکثر بااثر سیاسی خاندانوں کے افراد ہی کامیاب ہوئے ہیں۔
موروثی سیاست کا غلبہ رہا، قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے 35 حلقوں میں اکثر بااثر سیاسی خاندانوں کے افراد ہی کامیاب ہوئے ہیں۔

ضمنی انتخابات کے اثرات براہ راست حکومت پر نہیں ہوتے لیکن ان سے یہ ضرور پتا چل جاتا ہے کہ مسند اقتدار پر براجمان حکمرانوں کی مقبولیت کا گراف کتنا اوپر اور کتنا نیچے گیا ہے۔

14 اکتوبر کو قومی اسمبلی کے 11 اور صوبائی اسمبلیوں کے 24 حلقوں میں ضمنی انتخابات ہوئے، قومی اسمبلی کی 11 نشستوں میں سے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے 4، پاکستان مسلم لیگ (ن) نے 4 ،مسلم لیگ (ق) نے 2 اور متحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے) نے ایک سیٹ حاصل کی۔

ملکی تاریخ میں یہ پہلے ضمنی انتخابات ہیں جن میں حصہ لینے والے امیدواروں کی اکثریت کا تعلق بااثر سیاسی خاندانوں سے ہے۔

ضمنی انتخابات 2018 کی اہم اور خاص باتیں ذیل میں قارئین کی پیش خدمت ہیں۔

پہلی بار رکن اسمبلی بننے والے بااثر سیاسی خاندانوں کے سپوت

ضمنی انتخابات میں موروثی سیاست کا غلبہ رہا، قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے 35 حلقوں میں اکثر بااثر سیاسی خاندانوں کے افراد ہی کامیاب ہوئے ہیں۔

ان امیدواروں کی اکثریت پی ٹی آئی سے تھی جبکہ دیگر میں چوہدری، گنڈا پور، بلور، لغاری، خٹک سمیت طاقتور خانوادے سے تعلق رکھنے والے تھے۔

طاقتور سیاسی پس منظر کے حامل امیدواروں کی تفصیلات ملاحظہ ہوں۔

  • مسلم لیگ (ق) کے رہنما، سابق ڈپٹی وزیراعظم اور حال ہی میں اسپیکر پنجاب اسمبلی بننے والے چوہدری پرویز الٰہی کے صاحبزادے گجرات سے مسلم لیگ (ق) کے چوہدری مونس الہیٰ پہلی بار قومی اسمبلی کا حصہ بن رہے ہیں، اس سے قبل وہ پنجاب اسمبلی کے رکن رہے ہیں۔

  • اسی طرح وفاقی وزیر پیٹرولیم غلام سرور خان کے صاحبزادے منصور حیات خان پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر این اے 63 راولپنڈی سے پہلی بارایم این اے منتخب ہوئے ہیں۔

  • وزیر ریلوے شیخ رشید کے بھتیجے شیخ راشد شفیق راولپنڈی کے حلقے این اے 60 سے پی ٹی آئی کے ہی ٹکٹ پر پہلی بار ایوان زیریں میں براجمان ہوں گے۔

  • این اے 35 بنوں سے وزیراعظم عمران خان کی خالی نشست پر متحدہ مجلس عمل کے زاہد خان درانی بھی پہلی بار رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے ہیں، وہ سابق وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا اکرم درانی کے بیٹے ہیں۔

  • چکوال سے مسلم لیگ (ق) کے چوہدری سالک حسین پہلی بار قومی اسمبلی کے رکن بنے ہیں، ان کے والد چوہدری شجاعت حسین ہیں جو وزیراعظم اور متعدد بار وفاقی وزیر رہ چکے ہیں۔

  • این اے 53 اسلام آباد سے پی ٹی آئی کے علی نواز اعوان اور این اے 242 کراچی سے پی ٹی آئی کے عالمگیر خان بھی پہلی بار قومی اسمبلی میں براجمان ہوں گے لیکن ان کا تعلق بااثر سیاسی خاندان سے نہیں ہے۔

اس کے علاوہ بااثرسیاسی خاندانوں سے تعلق کی بنیاد پر صوبائی اسمبلیوں میں جانے والے امیدواروں کی بھی ایک لمبی فہرست ہیں۔

  • خیبرپختونخوا سے نوشہرہ کے 2 حلقوں پی پی 61 اور 64 سے پی ٹی آئی رہنما اور وفاقی وزیردفاع پرویزخٹک کی خالی دونوں نشستوں پر ان کے بھائی لیاقت خان خٹک اور صاحبزادے ابراہیم خٹک کامیاب ہوئے ہیں۔

  • اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کی جانب سے خالی کی گئی نشست پر ان کے بھائی عاقب اللہ کے پی صوابی 44 سے جیت گئے۔

  • ڈیرہ اسماعیل خان سے وفاقی وزیر علی امین گنڈا پور کی خالی نشست پی کے 97 سے ان کے بھائی فیصل امین گنڈا پور جبکہ پی کے 99 سے سابق وزیر اکرام اللہ گنڈا پور کے صاحبزادے آغا خان گنڈاپور فتح یاب ہوئے ہیں۔

اس مرتبہ بھی عمران خان کی دو نشستیں چھن گئیں

سال 2013 کے ضمنی انتخابات میں پی ٹی آئی چئیرمین عمران خان کی چھوڑی ہوئی قومی اسمبلی کی 2 نشستیں این اے ون پشاور اور این اے 71 میاںوالی عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے پاس چلی گئی تھیں۔

عام انتخابات 2018 میں عمران خان نے 5 نشستوں سے الیکشن میں حصہ لیا تھا اور پانچوں پر کامیابی حاصل کی تھی، بعد زاں انہوں نے 4 نشستیں چھوڑدی تھیں، جن میں سے این اے 131 لاہور کی سیٹ مسلم لیگ (ن) اور این اے 35 بنوں سے متحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے) نے جیت لیں جبکہ این اے 243 کراچی اور این اے 53 اسلام آباد کی نشستوں پر پی ٹی آئی امیدوار کامیاب ہوئے۔

پی ٹی آئی چئیرمین کی جیتی ہوئی دو نشستوں پر اُن کی حریف جماعتوں کی کامیابی کو کافی اہم قرار دیا جارہا ہے، سابق وزیراعظم نواز شریف نے اسے ’’حقیقی تبدیلی‘‘ قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ضمنی انتخابات کے نتائج ایک پیغام ہیں کہ آنے والا وقت کس طرح کا آرہا ہے۔

خواجہ سعد رفیق کی جیت

ضمنی الیکشن میں این اے 131 لاہور کا حلقہ سب سے زیادہ خبروں میں رہا، جس کی وجہ مسلم لیگ (ن) کے رہنما خواجہ سعد رفیق تھے، وہ عام انتخابات میں پی ٹی آئی چئیرمین عمران خان سے صرف 600 ووٹوں سے ہار گئے تھے۔

بعد ازاں لیگی رہنما نے دوبارہ گنتی کی درخواست دی تھی، چند پولنگ اسٹیشنز میں دوبارہ گنتی کی گئی اور دھاندلی کے ناکافی شواہد کی بنا پر تمام پولنگ اسٹیشنز پر ووٹوں کی دوبارہ گنتی کی درخواست مسترد کردی گئی اور عمران خان کی کامیابی کا نوٹیفکیشن جاری کردیا گیا تھا۔

اب ضمنی الیکشن میں خواجہ سعد رفیق نے دوبارہ اسی حلقے کا انتخاب کیا جبکہ ان کے مدمقابل سابق وفاقی وزیر اور پی ٹی آئی رہنما ہمایوں اختر تھے، دونوں کے درمیان انتہائی دلچسپ مقابلہ دیکھنے میں آیا۔

14 اکتوبر کی شب ٹی وی اسکرینز پر این اے 131 کا حلقہ ہی موضوع بحث تھا، کبھی سعد رفیق کے ووٹوں کی تعداد زیادہ ہوتی تو کبھی ہمایوں اختر کی، یہ سلسلہ دو سے تین گھنٹے تک جاری رہا، تاہم رات دس بجے تک صورتحال واضح ہوچکی تھی اور لیگی رہنما چند ہزار ووٹوں سے بازی جیت چکے تھے۔

عام انتخابات میں این اے 131 لاہور سے عمران خان کو 84313 ووٹ ملے تھے جبکہ شکست کھانے والے مسلم لیگ (ن) کے خواجہ سعد رفیق نے 83633 ووٹ حاصل کیے تھے۔

غیر سرکاری نتائج کے مطابق ضمنی انتخابات میں سعد رفیق کو 60352 ووٹ ملے ہیں جبکہ پی ٹی آئی امیدوار ہمایوں اختر خان نے 50155 ووٹ حاصل کیے ہیں۔

اس طرح دیکھا جائے تو سعد رفیق تقریباً 10 ہزار سے زائد ووٹوں سے کامیاب ہوئے ہیں۔ عام انتخابات میں محض 600 ووٹ سے ہارنے والے حزب اختلاف کی جماعت کے امیدوار کی ضمنی الیکشن میں 10 ہزار ووٹوں سے کامیابی، حکومت کے لیے تشویش طلب بات ضرور ہے۔

ضمنی اور عام انتخابات میں کاسٹ ووٹوں کا موازنہ

ضمنی انتخابات میں ووٹنگ ٹرن آؤٹ ہمیشہ کم ہی دیکھنے میں آیا ہے اور اس کی بنیادی وجہ وہ سیاسی گرما گرمی نہیں جو عام انتخابات میں دیکھنے کو ملتی ہے۔

مگر برسراقتدار سیاسی جماعت کے امیدواروں کی فتح اور شکست میں ووٹوں کی تعداد کی بہت اہمیت ہوتی ہے، اسی بنیاد پر اُن کے مستقبل کا تعین کیا جاتا ہے، اگر حکمراں پارٹی کے امیدواروں کی جیت اور ناکامی میں ووٹوں کا فرق مخالف امیدوار کے مقابلے میں بہت کم ہو تو اس پر حزب اختلاف کی جماعتوں کو کُھل کر کھیلنے کا موقع مل جاتا ہے اور وہ حکومت پر دباؤ بڑھانے کی کوشش کرتی ہیں۔

14 اکتوبر کو ہونے والے ضمنی انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف، پاکستان مسلم لیگ (ن)، مسلم لیگ (ق) اور متحدہ مجلس عمل سمیت دیگر جماعتوں کے امیدواروں کو عام انتخابات کے مقابلے میں انتہائی کم ووٹ ملے۔

لاہور سے ہی قومی اسمبلی کے حلقہ 124 سے سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی 78691 ووٹ لے کر کامیاب ہوئے جبکہ ان کے مقابلے میں تحریک انصاف کے امیدوار غلام محی الدین کو 32392 ووٹ ملے۔

جبکہ عام انتخابات میں اسی حلقے سے حمزہ شہباز نے ایک لاکھ 46 ہزار 294 ووٹ لیے تھے اور ان کے مدمقابل پی ٹی آئی کے امیدوار نعمان نصیر نے 80 ہزار 961 ووٹ حاصل کیے تھے۔

این اے 63 راولپنڈی سے پاکستان تحریک انصاف کے منصور حیات خاں 71782 ووٹ لے کر کامیاب ہوئے ہیں، ان کے مقابلے میں مسلم لیگ(ن) کے عقیل ملک 45490 ووٹ لے کر ناکام رہے۔

جبکہ عام انتخابات میں اس حلقے سے پی ٹی آئی کے غلام سرور خاں کو ایک لاکھ 58 اور ان کے مقابلے میں مسلم لیگ(ن) کے ناکام امیدوار ممتاز خاں کو 22966 اور آزاد امیدوار چودھری نثار علی 65767 ووٹ ملے تھے۔

این اے 243کراچی سے پی ٹی آئی کے عالمگیر 31894ووٹ لے کر کامیاب ہوئے جبکہ عام انتخابات میں وزیراعظم عمران خان اس حلقے سے 91358 ووٹ لے کر کامیاب ہوئے تھے۔

این اے 69 گجرات سے مسلم لیگ (ق) کے چوہدری مونس الٰہی 65759 ووٹ لے کر کامیاب ہوئے جبکہ عام انتخابات میں اس حلقے سے اُن کے والد چوہدری پرویزالٰہی کو ایک لاکھ 22 ہزار 336 ووٹ ملے تھے۔

این اے65 چکوال سے مسلم لیگ (ق) کے چوہدری سالک حسین ایک لاکھ 917 ووٹ لے کر کامیاب ہوئے، ان کے مقابلے میں تحریک لبیک کے محمد یعقوب 32326 ووٹ لے سکے جبکہ عام انتخابات میں مسلم لیگ (ق) کے چوہدری پرویز الٰہی نے ایک لاکھ 57ہزار 487ووٹ لیے تھے۔

بلور خاندان کی پہلی خاتون رکن اسمبلی

عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما ہارون بلور شہید کی بیوہ ثمربلور 2002ء کے بعد خیبرپختونخوا سے جنرل نشست پرکامیابی حاصل کرنے والی بلور خاندان کی پہلی خاتون اور اے این پی کی دوسری خاتون رکن اسمبلی بن گئیں۔

اے این پی کے خان عبدالولی خان کی اہلیہ اور پارٹی کی سابق صوبائی صدر بیگم نسیم ولی خان 1977میں پہلی مرتبہ جنرل نشست پر صوبائی اسمبلی کی رکن منتخب ہوئی تھیں جبکہ شہید ہارون بلور کی بیوہ ثمر ہارون بلور پی کے78پشاور سے ضمنی انتخابات میں جنرل نشست پر کامیابی حاصل کرنے والی اے این پی کی دوسری خاتون بن گئی ہیں۔

ثمر بلور کے خاوند ہارون بلور عام انتخابات سے محض چند روز قبل 10 جولائی 2018 کو انتخابی جلسے میں ہونے والے خود کش حملے کا شکار ہوگئے تھے، اس حملے میں دیگر 20 افراد بھی جاں بحق ہوئے تھے، جس کے بعد الیکشن کمیشن نے پی کے 78 میں انتخابات ملتوی کردیے تھے۔

پی ٹی آئی نے اُس وقت برملا اعلان کیا تھا کہ ہارون بلورشہید کی جگہ لینے والے امیدوار کے خلاف وہ اپنا امیدوار کھڑا نہیں کریں گے۔

مگر 14 اکتوبر کو ہونے والے ضمنی انتخابات میں پی ٹی آئی اپنے اس اعلان سے مکر گئی، اور اُس نے ہارون بلور کی بیوہ کے مدمقابل اپنا امیدوار کھڑا کردیا۔

کامیابی کے بعد ثمر بلور نے ڈان نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ شہید ہارون بلور کے مشن کو آگے بڑھاؤں گی، یہ جیت میری جیت نہیں بلکہ شہید ہارون بلور کی کامیابی ہے۔

ثمر بلور نے کہا تھا کہ جو لوگ کہتے تھے کہ عوامی نیشنل پارٹی کا وقت ختم ہوگیا، میں انہیں بتانا چاہتی ہوں کہ میری جیت نے میری پارٹی میں نئی روح پھونک دی ہے۔

کراچی میں عالمگیر خان محسود کی فتح

شہر قائد میں قومی اسمبلی کے حلقے 243 سے پاکستان تحریک انصاف کے ٹکٹ پرسماجی کارکن اور فکس اٹ مہم کے بانی عالمگیر خان محسود کامیاب ہوئے ہیں۔

انہوں نے 31894 ووٹ لے کر کامیابی حاصل کی جبکہ ان کے مدمقابل متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کے عامر چشتی صرف 13383 ووٹ لے سکے۔

این اے 243 میں بہادرآباد، شرف آباد، حسن اسکوائر، گلشن اقبال کے تمام بلاکس، میٹروول تھری اور گلستان جوہر شامل ہیں، ان علاقوں کا شمار کراچی کے پوش ترین علاقوں میں ہوتا ہے۔

عالمگیر خان محسود جنوری 2016 میں سوشل و الیکٹرونک میڈیا پر مقبول ہوئے اور ان کی مقبولیت کی وجہ ان کی فکس اٹ مہم تھی۔ جس کے تحت انہوں نے کراچی میں کھلے گٹروں پر ڈھکن لگانے اور اس پر صوبائی حکومت کی توجہ مبذول کرانے کی ٹھانی۔

کراچی میں کھلے گٹر روزانہ لاکھوں موٹرسائیکل و کار سواروں اور راہ گیروں کے لیے خطرہ بنے رہتے ہیں۔ عالمگیر خان کی یہ مہم شہریوں میں بہت مقبول ہوئی اور سوشل میڈیا پر بھی اس کو پذیرائی ملی، نوجوانوں کی معقول تعداد نے فکس اٹ مہم میں ان کا ساتھ بھی دیا۔

عالمگیر خان نے بعد ازاں اپنی مہم کا دائرہ بڑھایا اور شہر قائد میں جگہ جگہ کچرے کے ڈھیروں کو ٹھکانہ لگانا شروع کیا۔ وہ کئی بار کچرے سے بھرا ٹرک وزیراعلیٰ اور گورنر ہائوس کے سامنے لے کر بھی گئے جس پر انہیں حراست میں بھی لیا گیا۔

عالمگیر خان کو اپنی جیتی ہوئی نشست سے کھڑا کرنا عمران خان کا حیران کن فیصلہ تھا لیکن اُن کا اس نشست سے بھاری مارجن کے ساتھ جیت جانا اس سے زیادہ حیران کن ہے۔

عالمگیر خان محسودی قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں اور وہ جس حلقے سے انتخابات لڑے وہاں کی اکثریت اردو اسپیکنگ پر مشتمل ہے، ان کے مدمقابل متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے عامر چشتی تھے جو کہ اردو اسپیکینگ سیاسی جماعت کے نمائندہ بھی ہیں۔

یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ عالمگیر خان کو ملنے والی کامیابی میں اُن کے سماجی کاموں کا بھی عمل دخل ہے۔ شہر کے بنیادی مسائل کےلیے آواز اٹھانے والے سرگرم سماجی کارکن کا قومی اسمبلی میں جانا خوش آئند ہے، عالمگیر خان کم از کم اپنے حلقوں میں کھلے گٹر اور کچرے کے ڈھیر تو نہیں لگنے دیں گے۔

تبصرے (0) بند ہیں