سعودی عرب سے تعلق رکھنے والے صحافی جمال خاشقجی کی بلاگ سائٹ پر تاحال ان کے لاپتہ ہونے سے متعلق پیغام موجود ہے جس کو کلک کرنے پر ان کے لاپتہ ہونے کے حوالے سے واشنگٹن پوسٹ کی خبر کھل جاتی ہے۔

سعودی صحافی کی بلاگ سائٹ پر ان کے لکھے ہوئے بلاگز اور کالمز موجود ہیں۔

مذکورہ بلاگ سائٹ پر سعودی صحافی کے حوالے سے تفصیلات درج ہیں جن کے مطابق جمال خاشقجی صحافی کے علاوہ کالم نگار اور مصنف ہیں۔

سائٹ کے مطابق واشنگٹن پوسٹ سے وابستہ سعودی صحافی نے اپنے کیرئیر کا آغاز انگریزی زبان میں خبریں شائع کرنے والے ادارے سعودی گزٹ کے نمائندوں کے طور پر کیا۔

مزید پڑھیں: سعودی حکومت کی پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بنانے والا صحافی 'ترکی سے لاپتہ'

جمال خاشقجی 90-1987 میں انگریزی زبان میں شائع ہونے والے روزنامہ عرب نیوز اور عربی زبان میں شائع ہونے والے جدہ کے اخبار الشرق کے لیے غیر ملکی نمائندے کے طور پر کام کرتے تھے۔

انہیں 91-1990 کے دوران افغان جنگ اور خلیج کی جنگ کے دوران رپورٹنگ پر پزیرائی ملی۔

1990 سے 1999 تک جمال خاشقجی عربی زبان میں شائع ہونے والے اخبار الحیات سے غیر ملکی نمائندے کے طور پر وابستہ رہے، اس دوران انہوں نے افغانستان، الجیریا، لبنان، سوڈان اور دیگر خلیجی ممالک سے متعلق رپورٹنگ کی۔

ان کی مذکوررہ رپورٹنگ کے بعد انہیں اسلامی سیاست اور متعلقہ امور کا ماہر مانا جانے لگا۔

1999 میں جمال خاشقجی کو سعودی عرب کے انگریزی میں شائع ہونے والے اخبار روزنامہ عرب نیوز کا نائب چیف ایڈیٹر تعینات کیا گیا، 2003 میں انہیں الوطن کا چیف ایڈیٹر بنایا گیا لیکن انہیں اپنی ایڈیٹوریل پالیسز کی وجہ سے 2 ماہ میں ہی مذکورہ عہدے سے ہاتھ دھونا پڑے۔

یہ بھی پڑھیں: ’عرب حکومتوں کو کھلی چھوٹ مل چکی ہے‘: مقتول سعودی صحافی کا آخری کالم

بعد ازاں انہیں شہزادہ ترکی الفیصل کا میڈیا مشیر مقرر کیا گیا، جو پہلے لندن میں سعودی سفیر رہے اور بعد ازاں انہیں واشنگٹن میں سفیر مقرر کیا گیا۔

2007 میں انہیں دوبارہ الوطن کا چیف ایڈیٹر تعینات کردیا گیا، لیکن 2010 میں ایک مرتبہ پھر انہیں ایڈیٹوریل پالیسز کی وجہ سے عہدے سے برطرف کردیا گیا، وہ اپنی اشاعت میں ایسے موضوعات پر تبادلہ خیال کرتے تھے جن پر سعودی معاشرے میں بات کرنے کو ممنوع قرار دیا جاچکا تھا۔

جون 2010 میں شہزادہ الولید بن طلال نے جمال خاشقجی کو عربی زبان کی نشریات پیش کرنے والے نیوز چینل العرب کا سربراہ مقرر کردیا اور انہوں نے 2015 میں اس کا مرکز بحرین کے علاقے مانام میں قائم کیا۔

لیکن 11 گھنٹے کی نشریات کے بعد ہی حکومت نے العرب کو بند کرنے کا حکم دے دیا۔

جمال خاشقجی کی بلاگ سائٹ کے مطابق صحافی کا تعلق سعودی عرب کے شہر مدینہ سے ہے اور انہوں نے انڈیانہ اسٹیٹ یونیورسٹی سے تعلیم مکمل کی۔

جمال خاشقجی لاپتہ ہونے سے قبل واشنگٹن پوسٹ کے لیے تحریر کرتے تھے۔

مزید پڑھیں: سعودی عرب جمال خاشقجی کے قتل میں ملوث ہوا تو اسے سبق سکھائیں گے، امریکی صدر

خیال رہے کہ امریکا میں مقیم سعودی صحافی جمال خاشقجی اس وقت عالمی میڈیا کی شہ سرخیوں کا مرکز بنے جب 2 ہفتے قبل وہ ترکی میں قائم سعودی عرب کے قونصل خانے میں داخل تو ہوئے لیکن واپس نہیں آئے، بعد ازاں جن کے بارے میں خیال کیا جانے لگا کہ انہیں قونصل خانے میں قتل کر دیا گیا ہے۔

صحافی کی گمشدگی پر ترک حکومت نے فوری ردعمل دیتے ہوئے استنبول میں تعینات سعودی سفیر کو وزارت خارجہ میں طلب کیا جس کے بعد دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں کشیدگی کا خدشہ پیدا ہوا تھا۔

سعودی سفیر نے صحافی کے لاپتہ ہونے کے حوالے سے لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے تفتیش میں مکمل تعاون کی پیش کش کی تھی۔

سعودی صحافی جمال خاشقجی کی گمشدگی کے معاملے پر گزشتہ روز امریکی سیکریٹری خارجہ مائیک پومپیو نے سعودی فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز سے براہِ راست ملاقات بھی کی تھی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

Ahad Oct 18, 2018 10:48pm
Good