سعودی عرب جمال خاشقجی کے قتل میں ملوث ہوا تو اسے سبق سکھائیں گے، امریکی صدر

اپ ڈیٹ 14 اکتوبر 2018
جمال خاشقجی 2 اکتوبر سے لاپتہ ہیں — فائل فوٹو
جمال خاشقجی 2 اکتوبر سے لاپتہ ہیں — فائل فوٹو

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ اگر سعودی عرب صحافی جمال خاشقجی کے قتل کا ذمہ دار قرار پایا تو امریکا عرب ملک کو سخت سزا دے گا۔

برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق امریکی صدر کا کہنا تھا کہ 'اگر واقع کے تصدیق ہوگئی تو مجھے برا لگے گا اور غصہ بھی آئے گا'، لیکن ساتھ ہی انہوں نے فوجی معاہدوں کے خاتمے کو یکسر مسترد کیا۔

خیال رہے کہ صحافی جمال خاشقجی سعودی عرب میں شاہی خاندان کی جانب سے اٹھائے جانے والے حالیہ اقدامات کے مخالف تھے اور اکثر ان پر تنقید کرتے تھے جبکہ وہ 2 اکتوبر کو ترکی کے شہر استنبول میں قائم سعودی عرب کے قونصل خانے گئے تھے جس کے بعد سے وہ لاپتہ ہیں اور ان کو قتل کرنے کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے۔

دوسری جانب سعودی عرب نے صحافی کے قتل کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے انہیں جھوٹ پر مبنی قرار دیا۔

مزید پڑھیں: جمال خاشقجی کے حق میں آواز اٹھانے والے سعودی شاہی خاندان کے 5 افراد لاپتہ

سعودی وزارت داخلہ نے ایک جاری بیان میں کہا کہ ان کا ملک اس معاملے کی سچائی کو سامنے لانے کے لیے دلچسپی رکھتا ہے اور قتل کے حکم کے الزامات بے بنیاد ہیں۔

ترکی کے ایک سیکیورٹی ذرائع نے بتایا کہ واشنگٹن پوسٹ کے صحافی کے قتل سے متعلق آڈیو اور ویڈیو ثبوت موجود ہیں جن کے مطابق انہیں قونصل خانے میں قتل کیا گیا۔

ڈونلڈ ٹرمپ کا کیا کہنا تھا؟

سی بی ایس نیوز کو دیئے گئے انٹرویو میں ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ اگر صحافی کا قتل سچ ثابت ہوا تو یہ انتہائی ہولناک اور قابل نفرت ہے۔

انہوں نے کہا کہ 'ہم اس معاملے کی تہہ تک جانا چاہتے ہیں اور اس کی انتہائی سخت سزا دی جائے گی'۔

یہ بھی پڑھیں: ’سعودی ولی عہد نے جمال خاشقجی کے خلاف کارروائی کا حکم دیا‘

ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ سزا کے دیگر طریقے موجود ہیں جن میں فوجی معاہدے کو معطل کرنا بھی شامل ہے، اور یہی روس اور چین چاہتے ہیں۔

امریکی صدر کا کہنا تھا کہ 'میں اس قسم کا حکم جاری نہیں کرنا چاہتا'۔

صحافی کے لاپتہ ہونے پر دیگر کا رد عمل

گزشتہ روز اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل آنٹونیو گوٹیرس نے بتایا تھا کہ 'اس قسم کے واقعات میں اضافہ ہورہا ہے' اور انہوں نے بین الاقوامی کمیونٹی کو ایسے واقعات پر رد عمل دینے پر زور دیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ ایک مرتبہ یہ واضح ہوجائے کہ صحافی کے ساتھ کیا ہوا تھا حکومتوں کو اس معاملے میں خود بہتر انداز میں فیصلے لینے چاہیے کہ آیا رواں ماہ سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں ہونے والی سرمایہ کاری کانفرنس میں شرکت کرنی چاہیے یا نہیں۔

مزید پڑھیں: ‘لاپتہ صحافی کو سعودی قونصل خانے میں قتل کردیا گیا’

واضح رہے کہ ورلڈ بینک کے سربراہ جم کم نے پہلے ہی مذکورہ کانفرنس میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔

ورجن کے سربراہ سر ریچرڈ برسن کا کہنا تھا کہ وہ خود کو سعودی عرب کے 2 سیاحتی منصوبوں کے ڈائریکٹر کے عہدے سے علیحدہ کررہے ہیں۔

ترکی کے سیکیورٹی ذرائع کے انکشافات

ادھر ترکی کے سیکیورٹی ذرائع سے حاصل ہونے والی معلومات کے مطابق قتل کا واقعہ قونصل خانے میں پیش آیا۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ سیکیورٹی ذرائع نے تصدیق کی کہ واقعہ کے حوالے سے آڈیو اور ویڈیو ریکارڈنگ موجود ہے، لیکن یہ واضح نہیں ہے کہ کسی اور ترکی عہدیدار نے بھی مذکورہ ویڈیو دیکھیں یا یہ ریکارڈنگ سنی ہیں۔

واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ میں ایک سیکیورٹی ذرائع کے حوالے سے بتایا گیا کہ ریکارڈنگ سے صحافی پر تشدد اور بعد ازاں انہیں قتل کرنے کی تصدیق ہوتی ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ 'ریکارڈنگ میں عربی زبان بولنے والوں کی آوازیں سنی جاسکتی ہیں'، ایک اور ذرائع نے بتایا کہ 'ریکارڈنگ میں صحافی سے تحقیقات، تشدد اور قتل سے متعلق آوازیں سنی جاسکتی ہیں'۔

یہ بھی پڑھیں: صحافی کی گمشدگی پر ترک سعودی تعلقات میں تناؤ کا خدشہ

یاد رہے کہ ترک میڈیا پہلے ہی جمال خاشقجی کے سعودی قونصل خانے میں داخل ہونے کی ویڈیو نشر کر چکا ہے۔

اس کے علاوہ ایک علیحدہ ویڈیو میں سعودی انٹیلی جنس افسران کو ترکی میں داخل ہوتے اور جاتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔

ترک میڈیا نے دعویٰ کیا کہ سعودی عرب سے تعلق رکھنے والے صحافی کے لاپتہ کرنے میں 15 افراد پر مشتمل ٹیم کی نشاندہی کرلی گئی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں