لاہور ہائی کورٹ نے مشرق وسطیٰ کے ممالک کی جیلوں میں سزائے موت کے منتظر پاکستانی قیدیوں کو در پیش فوری سفارتی اور قانونی مدد سے متعلق پٹیشن کی سماعت کی۔

سول سوسائٹی کے گروپ جسٹس پروجیکٹ پاکستان (جے پی پی) کی جانب سے دائر پٹیشن میں بیرون ملک میں قید پاکستانیوں کے مسائل پر توجہ دلائی گئی۔

یہ بھی پڑھیں: غلامی آج بھی جاری ہے

پٹیشن کی سماعت لاہور ہائی کورٹ کی جج جسٹس عائشہ اے ملک نے کی۔

دائر پٹیشن میں موقف اختیار کیا گیا کہ اس ضمن میں فوری اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے، سعودی عرب، قطر اور کویت سمیت دیگر ممالک میں پاکستانی قیدی سفارتی اور قانونی تعاون کے منتظر ہیں۔

جے پی پی کی سربراہ اسماء کا کہنا تھا کہ گزشتہ چند ہفتوں میں تقریباً 9 پاکستانیوں کو سزائے موت دی جا چکی ہے۔

پٹیشن میں کہا گیا کہ یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ مقدمے کا سامنا کرنے والے پاکستانیوں کو قانونی معاونت فراہم کی جائے اور اس امر کو یقینی بنایا جائے کہ ان کے ساتھ شفاف ٹرائل ہورہا ہے۔

مزید پڑھیں: انشاء اللہ 6 ماہ میں بیرون ملک قید پاکستانی واپس آجائیں گے، چیف جسٹس

ان کا کہنا تھا کہ ہر پاکستانی قیدی کا بنیادی حق ہے کہ ایسے سفارتی سطح پر معاونت ملے۔

انہوں نے عدالت سے درخواست کی کہ وہ حکومت کو بیرون ملک پاکستانی قیدیوں کو سفارتی اور قانونی تعاون فراہم کرنے کا حکم جاری کرے اور ان کے خلاف جاری سماعت کو شفاف بنانے کے لیے اقدامات اٹھائے۔

عدالت نے سماعت 12 دستمبر تک ملتوی کردی گئی۔

واضح رہے کہ رواں برس کے آغاز میں جسٹس پروجیکٹ پاکستان کے تحت ’جال میں پھنس گیا‘ کے عنوان سے جاری کردہ رپورٹ میں سعودی عرب میں قید پاکستانی شہریوں کی حالت زار سے متعلق دستاویزات پیش کی گئیں تھی۔

یہ بھی پڑھیں: بیرونِ ملک قید پاکستانی اور حکومتی لاپرواہی

رپورٹ میں اس چیز کی نشاندہی کی گئی تھی کہ غیر محفوظ قیدی نا مناسب عمل کا سامنا کررہے ہیں اور بغیر کسی فرد جرم اور ٹرائل کے کافی عرصے سے قید ہیں اور انہیں کوئی قانونی مدد کی فراہمی تک میسر نہیں جبکہ اس کے ساتھ ساتھ انتظامیہ کی جانب سے اعتراف جرم پر دستخط کے لیے دباؤ ڈالا جاتا ہے۔

رپورٹ میں یہ انکشاف ہوا تھا کہ اکتوبر 2014 سے اب تک 66 پاکستانی شہریوں کو پھانسی دی گئی جبکہ 2 ہزار 795 قید میں ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں