سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے بعد ان ہی کا لباس پہنے ایک شخص کو استنبول میں قائم سعودی سفارتخانے سے باہر آتے دیکھا گیا جبکہ سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان کو اسی وقت سفارت خانے سے 4 کالز بھی کی گئی تھیں۔

غیر ملکی نشریاتی ادارے 'سی این این' اور ترک اخبار کی یہ رپورٹ گزشتہ روز ترک صدر کی جانب سے خاشقجی کے قتل کے حوالے سے تمام تحقیقات کو عیاں کرنے کے وعدے کے بعد سامنے آئیں۔

ان رپورٹس سے سعودی عرب پر واشنگٹن پوسٹ کے کالم نگار کے قتل کے حوالے سے دباؤ میں مزید اضافہ ہوگیا۔

واضح رہے کہ سعودی عرب نے 2 ہفتوں تک عالمی طور پر شدید بحرانی صورت حال کا سامنا کرنے کے بعد بالآخر 20 اکتوبر کو اعتراف کیا تھا کہ صحافی جمال خاشقجی کو استنبول میں قائم سعودی قونصل خانے کے اندر جھگڑے کے دوران قتل کردیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: جمال خاشقجی قتل: ’ہمیں نہیں معلوم کہ لاش کہاں ہے‘

تاہم ان کے اعتراف کے بعد سعودی عرب کے 33 سالہ ولی عہد محمد بن سلمان پر واقع میں ملوث ہونے کے الزامات لگائے جانے لگے۔

ترک میڈیا کی رپورٹ اور حکام کا کہنا تھا کہ 15 رکنی سعودی ٹیم 2 اکتوبر کو استنبول پہنچی تھی جنہیں معلوم تھا کہ جمال خاشقجی شادی کے لیے اپنے ضروری دستاویزات لینے وہاں جائیں گے۔

جمال خاشقجی کے سفارت خانے پہنچنے پر دوران تفتیش ان کی انگلیاں کاٹ دی گئی تھیں اور بعد ازاں انہیں زندہ ہی ٹکڑوں میں تبدیل کردیا گیا تھا۔

سی این این کی جانب سے سی سی ٹی وی فوٹیج سامنے آئی تھیں جس میں خاشقجی کے لباس میں ایک شخص کو سفارت خانے سے باہر آتے دیکھا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: جمال خاشقجی کے قتل پر سعودیہ کی حمایت کرنے والے ٹوئٹر اکاؤنٹس بند

ترک حکام کا کہنا تھا کہ یہ ان کے لباس میں سعودی ٹیم کا رکن تھا جنہیں صحافی کو قتل کرنے کے لیے استنبول بھیجا گیا تھا۔

مذکورہ شخص کو سفارتخانے سے باہر آکر ایک ٹیکسی میں بیٹھ کر استنبول کی مشہور سلطان احمد مسجد کی جانب جاتے ہوئے دیکھا گیا جہاں وہ واش روم میں جاکر دوبارہ بھیس بدل کر واپس آئے تھے۔

ترکی کے سرکاری نشریاتی ادارے ٹی آر ٹی کی رپورٹ کے مطابق سفارتخانے میں داخل ہونے والے شخص کو خاشقجی کے لباس میں باہر آتے دیکھا گیا تھا۔

جمال خاشقجی کا معاملہ

خیال رہے کہ سعودی شاہی خاندان اور ولی عہد محمد بن سلمان کے اقدامات کے سخت ناقد سمجھے جانے والے صحافی جمال خاشقجی گزشتہ ایک برس سے امریکا میں مقیم تھے تاہم 2 اکتوبر 2018 کو اس وقت عالمی میڈیا کی شہ سرخیوں میں آئے جب وہ ترکی کے شہر استنبول میں قائم سعودی عرب کے قونصل خانے میں داخل ہوئے لیکن واپس نہیں آئے، بعد ازاں ان کے حوالے سے خدشہ ظاہر کیا گیا کہ انہیں قونصل خانے میں ہی قتل کر دیا گیا ہے۔

صحافی کی گمشدگی پر ترک حکومت نے فوری ردعمل دیتے ہوئے استنبول میں تعینات سعودی سفیر کو وزارت خارجہ میں طلب کیا جس کے بعد دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں کشیدگی کا خدشہ پیدا ہوا تھا۔

مزید پڑھیں: جمال خاشقجی متعدد مرتبہ متنازع ایڈیٹوریل پالیسز پر برطرف ہوئے

ترک ذرائع نے میڈیا کو بتایا تھا کہ ان کا ماننا ہے کہ سعودی صحافی اور سعودی ریاست پر تنقید کرنے والے جمال خاشقجی کو قنصل خانے کے اندر قتل کیا گیا۔

سعودی سفیر نے صحافی کے لاپتہ ہونے کے حوالے سے لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے تفتیش میں مکمل تعاون کی پیش کش کی تھی۔

سعودی حکام نے ترک ذرائع کے دعوے کی مخالفت کرتے ہوئے کہا تھا کہ جمال خاشقجی لاپتہ ہونے سے قبل قونصل خانے کی عمارت سے باہر جاچکے تھے۔

تاہم 12 اکتوبر کو یہ خبر سامنے آئی تھی کہ سعودی صحافی جمال خاشقجی کی گمشدگی پر آواز اٹھانے والے 5 شاہی خاندان کے افراد ایک ہفتے سے غائب ہیں۔

اس کے بعد جمال خاشقجی کے ایک دوست نے دعویٰ کیا کہ سعودی صحافی، شاہی خاندان کی کرپشن اور ان کے دہشت گردوں کے ساتھ تعلقات کے بارے میں بہت کچھ جانتے تھے۔

انہوں نے کہا تھا کہ خاشقجی کی صحافت سعودی حکومت کے لیے بڑا خطرہ نہیں تھی لیکن ان کے خفیہ ایجنسی کے ساتھ تعلقات تھے جس کی وجہ سے انہیں بعض اہم معاملات سے متعلق علم تھا۔

سعودی صحافی جمال خاشقجی کی گمشدگی کے معاملے پر امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ مائیک پومپیو نے سعودی فرماں روا شاہ سلمان بن عبدالعزیز سے براہ راست ملاقات بھی کی تھی۔

اس کے علاوہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے دھمکی آمیز بیان میں کہا تھا کہ اگر اس معاملے میں سعودی عرب ملوث ہوا تو اسے سخت قیمت چکانا پڑے گی۔

17 اکتوبر کو بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی سربراہ کرسٹین لاگارڈے نے معروف صحافی کی مبینہ گمشدگی کے بعد مشرق وسطیٰ کا دورہ اور سعودی عرب میں سرمایہ کاری کانفرنس میں شرکت ملتوی کردی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: جمال خاشقجی کا قتل: محمد بن سلمان کی بادشاہت خطرے میں پڑگئی؟

اسی روز سعودی صحافی خاشقجی کی گمشدگی کے بارے میں نیا انکشاف سامنے آیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ انہیں تشدد کا نشانہ بنا کر زندہ ہی ٹکڑوں میں کاٹ دیا گیا۔

ترک اخبار کا لرزہ خیز انکشاف

ترک قدامت پسند اخبار ’ینی شفق‘ کی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ انہوں نے وائس ریکارڈنگ سنی ہے جس میں جمال خاشقجی کو تفتیش کے دوران تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے سنا جا سکتا ہے اور پہلے ان کی انگلی کاٹی گئی بعدازاں زندہ ہی ٹکڑوں میں تبدیل کردیا گیا۔

رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ 7 منٹ کے اندر جمال خاشقجی کی موت واقع ہوگئی، انہیں سعودی قونصلر کے دفتر کے برابر میں موجود لائبریری میں لایا گیا اور اسٹڈی ٹیبل پر لٹا کر کوئی بے ہوشی کا انجیکشن لگایا گیا جس کے بعد ان کی آوازیں بند ہوگئیں۔

ترک اخبار نے دعویٰ کیا تھا کہ سعودی جنرل سیکیورٹی ڈپارٹمنٹ میں فرانزک شواہد کے ہیڈ صلاح محمد الطوبیغے نے مبینہ طور پر ان کے جسم کو ٹکڑوں میں تبدیل کرنا شروع کیا تھا۔

بعد ازاں سعودی عرب کے جلاوطن شہزادے خالد بن فرحان السعود نے الزام لگایا تھا کہ سعودی صحافی جمال خاشقجی کی مبینہ گمشدگی کے پیچھے ولی عہد محمد بن سلمان کا ہاتھ ہے اور سعودی حکمراں کسی نہ کسی پر الزام دھرنے کے لیے 'قربانی کا کوئی بکرا' ڈھونڈ ہی لیں گے۔

تبصرے (0) بند ہیں