سپریم کورٹ نے قومی احتساب بیورو (نیب) کی کارکردگی پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے نیب کے دہرے معیار پر بھی سوال اٹھایا اور کہا کہ نیب سیاست زدہ کیوں ہورہا ہے۔

عدالت عظمیٰ میں جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے وزارت اطلاعات سندھ کے سیکشن آ فیسر سارنگ لطیف کی درخواست ضمانت پر سماعت کی۔

سماعت کے دوران جسٹس گلزار نے ریمارکس دیے کہ ایسا لگتا ہے کہ مقامی پراسیکوٹر ہر پیشی کے پیسے لے کر چلے جاتے ہیں، کرپشن مقدمات میں تو نیب جانے ان کا ایمان جانے، 5 ارب کا کیس ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ نیب کا مقدمات میں ایک جیسا رویہ نہیں، کچھ مقدمات میں نیب پورا زور لگاتا ہے کچھ کو پوچھتا تک نہیں، نیب سیاست زدہ کیوں ہورہا ہے۔

مزید پڑھیں: نیب پر تحقیقات میں دوہرا معیار اپنانے کا الزام

دوران سماعت ججز نے نیب کی کارکردگی پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے سخت ریمارکس دیے۔

جسٹس گلزار نے کہا کہ ہم تو سمجھتے ہیں یہ ساری نیب کی ملی بھگت ہے، نیب نے کرنا کچھ نہیں لیکن سب کو عذاب میں ڈال رکھا ہے، نیب پر قوم کے اربوں خرچ ہوتے ہیں، کیا اس نے پلی بارگین کے علاوہ کوئی کارکردگی دکھائی، کوئی ایک کیس بتائیں جہاں اس نے ریکوری کی ہو۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ جس افسر کے گھر سے اربوں نکلے نیب اس سے بھی پلی بارگین کے چکر میں تھا، رئیسانی کیس میں نیب کے بڑوں پر مقدمہ بننا چاہیے۔

یہ بھی پڑھیں: سیاستدانوں کے ’میڈیا ٹرائل’ پر نیب کی سرزنش

ان کا کہنا تھا کہ گھر سے اربوں نکلنے کے بعد بھی نیب پلی بارگین کے لیے پیچھے پڑ گیا، نیب کو مقدمات کے لیے ایک اصول بنانا چاہیے، ہر کیس میں اپنی مرضی کا رویہ اپنایا جاتا ہے۔

جسٹس گلزار نے کہا کہ سپریم کورٹ نے رئیسانی کیس میں ضمانت مسترد کی تو نیب نے ماتحت عدالت سے ملزم رہا کروا لیے، ضمانت مسترد ہونے کے 2 ماہ میں ملزم باہر آ جاتے ہیں۔

بعد ازاں عدالت نے ملزم سارنگ لطیف کی درخواست ضمانت مسترد کردی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں