ترکی میں سعودی سفارتخانے میں سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے حوالے سے سعودی پراسیکیوٹر کا کہنا ہے کہ ’ان کا قتل منصوبہ بندی کے تحت کیا گیا تھا‘۔

واضح رہے کہ 23 اکتوبر کو ترک صدر طیب اردوان نے پارلیمانی پارٹی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ جمال خاشقجی کا قتل باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت سعودی قونصل خانے میں کیا گیا۔

قطری میڈیا ’الجزیرہ‘ کی رپورٹ کے مطابق پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ ترک حکام کی معلومات ظاہر کرتی ہیں کہ ملزمان نے خاشقجی کا قتل منصوبہ بندی کے تحت کیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’پبلک پراسیکیوشن نے ملزمان کے خلاف اپنی تحقیقات جاری رکھی ہوئی ہیں تاکہ انصاف کے عمل کو مکمل کیا جاسکے‘۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ پراسیکیوٹر ملزمان سے ترک-سعودی مشترکہ ٹاسک فورس کی فراہم کی گئی معلومات پر تفتیش کر رہے ہیں۔

ولی عہد کی انٹیلی جنس اجلاس میں شرکت

سعودی عرب کے سرکاری خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے خاشقجی کے قتل کے بعد ریاست کے خفیہ اداروں کا بنیادی ڈھانچا تبدیل کرنے کے لیے بنائی گئی کمیٹی کے پہلے اجلاس میں شرکت کی۔

مقدمہ عالمی عدالت میں نہیں لے کر جائیں گے، ترکی

ترک وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ ترکی کا خاشقجی قتل کیس کو بین الاقوامی عدالت میں لے جانے کا کوئی ارادہ نہیں تاہم اگر عدالت نے اپنی تحقیقات شروع کردیں تو معلومات کا تبادلہ کرنے کو تیار ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ انقرہ کیس کو سلجھانے کے لیے تمام ضروری اقدامات کر رہا ہے اور سعودی عرب سمیت تمام افراد جو تعاون کرنا چاہتے ہیں، ان سے تعاون کیا جارہا ہے۔

مزید پڑھیں: خاشقجی کا قتل سنگین غلطی تھی، سعودی وزیر خارجہ

فلسطینی وزیر خارجہ ریاض المالکی کے ساتھ نیوز کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے زور دیا کہ قتل کے واقعے میں ملوث تمام افراد کی تحقیقات اور مقدمہ ترکی میں چلنا چاہیے۔

سعودی ولی عہد کو قتل کا معلوم ہوگا، سابق سی آئی اے سربراہ

سابق سی آئی اے کے سربراہ جون برینن کا کہنا تھا کہ ’اس میں کوئی شبہ نہیں کہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کو خاشقجی کے قتل کے منصوبے کا پہلے سے ہی علم ہوگا‘۔

انہوں نے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے واقعے پر بین الاقوامی مذمت کی حمایت کی۔

سی آئی اے سربراہ نے خاشقجی قتل سے متعلق آڈیو ٹیپ سنی، رپورٹ

الجزیرہ نے واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ سی آئی اے کے ڈائریکٹر جینا ہیسپل نے ترکی کے دورے کے دوران جمال خاشقجی کے قتل کی آڈیو ریکارڈنگ سنی۔

اس حوالے سے سابق سی آئی اے حکام بروس ریڈل کا کہنا تھا کہ ’امریکی حکام کی ترکی کے اہم شواہد تک رسائی سے کھیل اب واشنگٹن کی عدالت تک پہنچے گا‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’اس سے نہ صرف میڈیا کا دباؤ بڑھے گا بلکہ کانگریس بھی جینا ہیسپل سے ریکارڈنگ کے حوالے سے سوالات کرے گی‘۔

واضح رہے کہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے واقعے کی اطلاع ہونے کی خبروں کو مسترد کیا ہے اور اس کے ذمہ دار افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کا وعدہ کیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ’خاشقجی کے بیٹے نے اس سے ہاتھ ملایا جو شاید اس کے والد کا قاتل ہے‘

انہوں نے جمال خاشقجی کے قتل کو ’گھناؤنا جرم‘ قرار دیا ہے۔

تاہم یہ واضح نہیں کہ ولی عہد ایک غیر جانب دار تحقیقات کی اجازت دیں گے جبکہ خاشقجی کے قتل میں ان کے کردار کے الزامات لگائے گئے ہیں۔

ترکی کے سینیئر حکام کا کہنا تھا کہ ’سعودی ولی عہد کے ملزم ہونے پر سعودی عرب حقیقی تحقیقات کیسے کرسکتا ہے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’سعودی ولی عہد ملزمان میں سے ایک ہیں جبکہ ان کے شاہی گارڈز خاشقجی کا قتل کرنے والی ٹیم کا حصہ ہیں، امریکا سمیت دنیا بھر کو اسے قبول نہیں کرنا چاہیے‘۔

جمال خاشقجی کا معاملہ

خیال رہے کہ سعودی شاہی خاندان اور ولی عہد محمد بن سلمان کے اقدامات کے سخت ناقد سمجھے جانے والے سعودی صحافی جمال خاشقجی گزشتہ ایک برس سے امریکا میں مقیم تھے تاہم 2 اکتوبر 2018 کو اس وقت عالمی میڈیا کی شہ سرخیوں میں رہے جب وہ ترکی کے شہر استنبول میں قائم سعودی عرب کے قونصل خانے میں داخل ہوئے لیکن واپس نہیں آئے، بعد ازاں ان کے حوالے سے خدشہ ظاہر کیا گیا کہ انہیں قونصل خانے میں ہی قتل کر دیا گیا ہے۔

صحافی کی گمشدگی پر ترک حکومت نے فوری ردعمل دیتے ہوئے استنبول میں تعینات سعودی سفیر کو وزارت خارجہ میں طلب کیا جس کے بعد دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں کشیدگی کا خدشہ پیدا ہوا تھا۔

ترک ذرائع نے میڈیا کو بتایا تھا کہ ان کا ماننا ہے کہ سعودی صحافی اور سعودی ریاست پر تنقید کرنے والے جمال خاشقجی کو قنصل خانے کے اندر قتل کیا گیا۔

مزید پڑھیں: جمال خاشقجی قتل: ’ہمیں نہیں معلوم کہ لاش کہاں ہے‘

سعودی سفیر نے صحافی کے لاپتہ ہونے کے حوالے سے لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے تفتیش میں مکمل تعاون کی پیش کش کی تھی۔

سعودی حکام نے ترک ذرائع کے دعوے کی مخالفت کرتے ہوئے کہا تھا کہ جمال خاشقجی لاپتہ ہونے سے قبل قونصل خانے کی عمارت سے باہر جاچکے تھے۔

تاہم 12 اکتوبر کو یہ خبر سامنے آئی تھی کہ سعودی صحافی جمال خاشقجی کی گمشدگی پر آواز اٹھانے والے 5 شاہی خاندان کے افراد ایک ہفتے سے غائب ہیں۔

اس کے بعد جمال خاشقجی کے ایک دوست نے دعویٰ کیا کہ سعودی صحافی، شاہی خاندان کی کرپشن اور ان کے دہشت گردوں کے ساتھ تعلقات کے بارے میں بہت کچھ جانتے تھے۔

انہوں نے کہا تھا کہ خاشقجی کی صحافت سعودی حکومت کے لیے بڑا خطرہ نہیں تھی لیکن ان کے خفیہ ایجنسی کے ساتھ تعلقات تھے جس کی وجہ سے انہیں بعض اہم معاملات سے متعلق علم تھا۔

یہ بھی پڑھیں: جمال خاشقجی کا قتل: محمد بن سلمان کی بادشاہت خطرے میں پڑگئی؟

سعودی صحافی جمال خاشقجی کی گمشدگی کے معاملے پر امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ مائیک پومپیو نے سعودی فرماں روا شاہ سلمان بن عبدالعزیز سے براہ راست ملاقات بھی کی تھی۔

اس کے علاوہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے دھمکی آمیز بیان میں کہا تھا کہ اگر اس معاملے میں سعودی عرب ملوث ہوا تو اسے سخت قیمت چکانا پڑے گی۔

17 اکتوبر کو بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی سربراہ کرسٹین لاگارڈے نے معروف صحافی کی مبینہ گمشدگی کے بعد مشرق وسطیٰ کا دورہ اور سعودی عرب میں سرمایہ کاری کانفرنس میں شرکت ملتوی کردی تھی۔

اسی روز سعودی صحافی خاشقجی کی گمشدگی کے بارے میں نیا انکشاف سامنے آیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ انہیں تشدد کا نشانہ بنا کر زندہ ہی ٹکڑوں میں کاٹ دیا گیا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں