واشنگٹن: جب پاکستان نے پہلی مرتبہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے لیے امکانات تلاش کیے اس وقت اسرائیل کے سابق وزیر خارجہ سیلون شالوم نے اسلام آباد کو یقین دہانی کروائی تھی کہ اسرائیل نے پاکستان کے جوہری اثاثے ختم کرنے کے لیے بھارت کے ساتھ کبھی کوئی منصوبہ نہیں بنایا۔

19 ستمبر، 2005 کو نیویارک میں اقوام متحدہ ہیڈکوارٹرز کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں سیلوں شالوم نے صحافی کو بتایا تھا کہ ’پچھلے 58 برس میں آج تک اسرائیل نے کبھی بھی پاکستان کو اپنا دشمن تصور نہیں کیا اور ہمیشہ اسلام آباد سے دی گئی عوامی یقین دہانی پر یقین کیا کہ جوہری پروگرام اسرائیل مخالف نہیں ہے‘۔

یہ اس وقت کی بات ہے جب سابق صدر پرویز مشرف کی حکومت اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کے لیے ممکنہ آپشنز پر غور کررہی تھی۔

2 فروری 2005 کو اس وقت کے وزیرخارجہ خورشید قصوری نے ترکی میں سیلون شالوم سے ملاقات کی تھی۔

جس پر امریکی میڈیا نے رپورٹ کیا تھا کہ پاکستان کے صدر پرویز مشرف نے اسرائیل سے تعلقات میں پہل کی جس کے بعد یہ ملاقات ہوئی۔

سیلون شالوم اور خورشید قصوری کی ملاقات کے بعد جنرل پرویز مشرف اور اسرائیل کے صدر ایریل شیرون کی تاریخی ملاقات 14 ستمبر 2005 کو نیویارک میں اقوام متحدہ کی عمارت میں ہوئی تھی۔

جنرل پرویز مشرف پہلے پاکستانی سربراہ تھے جنہوں نے ایک اسرائیلی لیڈر سے ملاقات کی تھی، انہوں نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 60ویں سالانہ اجلاس میں دنیا بھر کے سربراہان کی تصاویر لیے جانے کے موقع پر ایریل شیرون سے بات کی تھی۔

9 ستمبر 2005 کو ایسوسی ایٹڈ پریس کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں پرویز مشرف نے اسرائیلی سربراہ کو غزہ سے یہودی آبادی ختم کرنے کے اقدام پر بہادر قرار دیا تھا۔

انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ ان کا شیرون سے ملاقات کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔

تاہم ڈان نے 3 ستمبر 2005 کو رپورٹ کیا تھا کہ پرویز مشرف کو نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں شیرون سے ’ اتفاقی ملاقات‘ کا موقع ملا تھا۔

اے پی کو دیئے گئے انٹرویو میں پرویز مشرف نے اس بات کا اشارہ دیا تھا کہ اگر اسرائیلی رہنما ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام پر آمادہ ہوجائیں تو پاکستان، اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرسکتا ہے۔

پاکستانی اور اسرائیلی رہنماؤں کے درمیان عوامی ملاقات 3 سال بعد اس وقت ہوئی تھی جب اسرائیلی وزیر دفاع احد باراک اور پرویز مشرف 23 جون 2008 کو پیرس میں لگژری ہوٹل رافیل کی لابی میں ایک دوسرے سے ٹکرائے تھے۔

پرویز مشرف اس وقت فرانس کے صدر نکولس سرکوزی سے ملاقات کے لیے جارہے تھے اور احد باراک نے اس موقع کا فائدہ اٹھایا، پاکستانی سربراہ تک رسائی حاصل کی، اپنا تعارف کروایا اور کہا کہ ’ہم دہشت گردوں کے خلاف جنگ اور دنیا میں امن کے قیام میں آپ کی کوشش پر آپ کے لوگوں کی حمایت کرتے ہیں‘۔

سابق صدر پرویز مشرف نے اپنا ہاتھ احد باراک کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور جواب دیا کہ ’آپ کا بہت شکریہ، امید ہے امن کے قیام میں آپ اپنا کردار ادا کریں گے‘۔

دونوں رہنماؤں نے ایک دوسرے سے مصافحہ کیا اور چلے گئے۔

مشرف اور شیرون کی ملاقات کے بعد سیلون شالام نے ڈان سے بات کی تھی جو پاکستان کے کسی صحافتی ادارے کو اسرائیلی رہنما کا پہلا باضابطہ انٹرویو تھا۔

سابق آرمی چیف مرزا اسلم بیگ کے 2005 میں ایک بیان میں کہا تھا کہ بھارت اور اسرائیل نے 1991 میں پاکستان کی جوہری تنصیبات پر فضائی حملے کا منصوبہ بنایا تھا۔

اس بیان سے متعلق سوال پر سیلون شالوم کا کہنا تھا کہ ’ پاکستان کے جوہری پروگرام کو ختم کرنے کا کبھی کوئی منصوبہ نہیں بنایا گیا‘۔

انہوں نے کہا کہ ’ یہ وہ سازشیں جو کچھ وقت کے بعد اسرائیل کے خلاف کی جاتی ہیں‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ ہم اسلام آباد میں عوامی یقین دہانی پر یقین رکھتے ہیں لیکن کبھی خفیہ یقین دہانی کی کوشش نہیں کی کیونکہ ہم نے اس پر یقین کیا جو عوامی سطح پر کہا گیا‘۔

سیلون شالوم کا کہنا تھا کہ پاکستان بھی اسلامی ملک ہے جس کے پاس جوہری ہتھیار ہیں لیکن ’اسے ایران کی طرح نفرت نہیں اور نہ ہی اسرائیل کو تباہ کرنے کا کوئی ارادہ تھا‘۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کبھی ایران ، شام اور لیبیا کی طرح اسرائیل مخالف منصوبوں میں شامل نہیں ہوا۔

اسرائیل کے وزیر خارجہ نے اس بات کو واضح کیا کہ اسرائیل بھارت کے ساتھ تعلقات کو پاکستان سے علیحدہ رکھنا چاہتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’ بھارت سے ہمارے تعلقات کسی ملک کے خلاف نہیں ، ہم نے بھارت کے ساتھ پاکستان یا کسی ملک کے خلاف کسی منصوبے میں کردار ادا نہیں کیا اور نہ ہی کریں گے‘۔

یہ انٹرویو اسی ہوٹل میں لیا گیا تھا جہاں بھارت کے سابق وزیراعظم من موہن سنگھ بھی قیام پذیر تھے اور اسرائیل کی سیکیورٹی کی ایک جھلک دیکھی تھی۔

باڈی سرچ ایسا تھا کہ میٹل ڈیٹیکٹر ہڈیوں تک پر محسوس ہوتے تھے، جوتے اتروا کر دھماکہ خیز مواد کی تلاش کے لیے ایک علیحدہ مشین سے گزارے گئے تھے۔

آستینیں ، کالر ، پاکٹس اور یہاں تک کے بیلٹ بھی میٹل ڈیٹیکٹر سے چیک کی جاتی تھیں اور اسکے بعد وزیر خارجہ کی حفاظت پر مامور سیکیورٹی ایجنٹ بھی تلاشی لیتے تھے۔

جب اسرائیلی ایجنٹس نے سیکیورٹی چیک کیا اس وقت موجود امریکی سیکیورٹی خاموشی سے دیکھ رہے تھے،اس صحافی کو اپنا سوشل سیکیورٹی نمبر ، تاریخ اورجائے پیدائش سمیت دیگر تفصیلات پہلے اسرائیلی ایجنٹ اور اس کے بعد امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے اہلکار کو دینا ضروری تھی۔

سیلون شالوم نے انٹرویو لینے والے کو ایک گرم جوش مصافحے کے ساتھ خوش آمدید کہا تھا اور فوری طور پر 20 منٹ کا انٹرویو شروع کرنے کا اشارہ دیا تھا لیکن گفتگو کے آغاز کے بعد ایک گھنٹے تک جاری رکھنے کی اجازت دی تھی۔

سیلون شالوم سے انٹرویو کا خلاصہ آپ کی خدمت میں پیش کرتے ہیں۔

سوال : ایک ہفتہ قبل اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں صدر پرویز مشرف اور اسرائیلی صدر کی ملاقات اتفاقی تھی یا اس کی منصوبہ بندی پہلے سے کی گئی تھی؟

جواب : یہ ایک تقریب میں اتفاقی ملاقات تھی ، اس کی منصوبہ بندی نہیں کی گئی تھی،ملاقات مختصر اور رسمی تھی۔

سوال : کیا دونوں رہنماؤں کے درمیان کوئی ملاقات متوقع ہے؟

جواب: یکم ستمبر کوخورشید قصوری سے استنبول میں پیش رفت ہوئی تھی اس کے علاوہ کوئی ملاقات طے نہیں کی گئی، دونوں فریقین ابھی بنیادی تعلقات سے متعلق کوشش کریں گے۔

سوال : کوئی خاص پلان؟

جواب : اس حوالے سے دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ کے درمیاں رابطہ ہوگا تاکہ تعلقات بڑھانے کے لیے طریقے تلاش کیے جائیں لیکن اقوام متحدہ میں ملاقات نہیں کی جائے گی۔

سوال: اقوام متحدہ کے باہر کوئی؟

جواب: اس حوالے سے ابھی کچھ نہیں کہہ سکتا۔

سوال : قصوری صاحب کے ساتھ ملاقات طے کرنے میں کس نے کردار ادا کیا تھا؟

جواب: ترک وزیراعظم نے۔ یہ صدر پرویز مشرف کے لیے بھی اہم تھا کہ ملاقات ترکی میں ہو۔ ترکی کے اسرائیل اور پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں۔ اس لیے ترک وزیراعظم نے ہم دونوں کے ساتھ کام کیا ہے اور فلسطینیوں کے ساتھ بھی۔

سوال: کیا سعودی بادشاہ اور فلسطینی وزیر اعظم نے کوئی کردار ادا کیا تھا؟

جواب: فلسطینیوں اور سعودیوں نے پاکستان کے ساتھ ہمارے تعلقات کی حمایت کی تھی جبکہ کئی ممالک اور رہنماؤں کو پاکستان کے ساتھ ہمارے روابط کا سن کر خوشگوار حیرت ہوئی تھی۔

سوال: پاکستان کے ساتھ آپ کے روابط کتنے پرانے ہیں؟

جواب: پاکستان کے ساتھ ہمارے طویل عرصے سے براہ راست روابط ہیں جبکہ ہمارے لوگ کئی ممالک میں پاکستانی مشنز کے عہدیداران سے مل رہے تھے۔ تاہم یہ تمام روابط سفیر کی سطح کے نہیں بلکہ نچلی سطح کے تھے لیکن ان روابط نے خورشید قصوری کے ساتھ ملاقات کا ماحول بنانے میں کردار ادا کیا۔

سوال: افغان جنگ کے دوران کیا پاکستان میں اسرائیل کے ملٹری ایڈوائزرز موجود تھے؟

جواب: ایسی تمام رپورٹس اسرائیل کے خلاف سازشوں کا حصہ ہیں جن میں کوئی سچائی نہیں۔

سوال: اسرائیل پر حملے کے لیے پاکستان کی عرب ریاستوں کے ساتھ شمولیت سے متعلق آپ کو کبھی پریشانی ہوئی؟

جواب: نہیں۔ پاکستان کبھی بھی کسی عرب ملک کے اسرائیل پر حملے کی منصوبہ بندی کا حصہ نہیں رہا۔

سوال: صدر پرویز مشرف نے کہا کہ فلسطینی ریاست کے قیام تک وہ اسرائیل کو تسلیم نہیں کر سکتے، اس پر کوئی تبصرہ کریں گے؟

جواب: پاکستان اور دیگر مسلم ممالک کو یہ سمجھنا چاہیے کہ فلسطینیوں کی مدد کے لیے انہیں اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کی ضرورت ہے، ہمارے ساتھ تعلقات کے بغیر وہ ان کی مدد نہیں کر سکتے۔

سوال: کیا آپ کے پاکستان کے ساتھ روابط سے دیگر مسلم ممالک کے اسرائیل سے متعلق موقف میں نرمی آئے گی؟

جواب: ہم اس حوالے سے پیشرفت کر رہے ہیں۔ اردن اور مصر نے ساڑھے چار سال بعد اپنے سفیروں کو دوبارہ اسرائیل بھیج دیا ہے، مسلم رہنما اسرائیل کا دورہ کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں، ہمارا ترکی کے ساتھ اقتصادی معاہدہ ہے، جبکہ موریتانیہ کے ساتھ ہمارے اچھے تعلقات ہیں۔

سوال: اسرائیل کو تسلیم کرنے والا اگلا مسلم ملک کون ہوگا؟

جواب: میری جمعرات کو قطر کے وزیر خارجہ سے ملاقات ہوئی تھی، انتفاضہ سے قبل ہمارا قطر میں مفادات سے متعلق بیورو تھا، تقریباً 10 ممالک ہمارے ساتھ بات چیت کر رہے ہیں جبکہ میں جنرل اسمبلی کے اجلاس کے دوران میں چند دیگر مسلم ممالک کے وزرائے خارجہ سے بھی ملاقاتیں کروں گا۔'

سوال: کیا یہ روابط فلسطینی ریاست کے قیام کی راہ ہموار کریں گے؟

جواب: یہ فلسطینیوں پر منحصر ہے، 'روڈ میپ' پر مکمل عملدرآمد ہونا چاہیے، انہیں سب سے پہلے دہشت گردی کا انفراسٹرکچر ختم کرنا ہوگا۔غزہ ایک ماڈل ہے جو اگر کام کرتا ہے تو اس سے ہمیں منصوبے کے دیگر حصے پر عمل کرنے کا حوصلہ ملے گا لیکن جب تک وہ دہشت گردی اور کشیدگی ختم نہیں کرتے ہم یہ نہیں کر سکتے۔ اسرائیل کے ساتھ غزہ کی سرحدی پٹی اسمگلروں کی جنت ہے جبکہ انہیں مزید ٹنلز کھودنے کی ضرورت نہیں ہے۔

سوال: کیا آپ یروشلم کو فلسطینیوں کے ساتھ بانٹنے اور فلسطینی مہاجرین کے واپس آنے پر رضامند ہوں گے؟

جواب: ہم فوری طور پر حتمی حل کی طرف نہیں جاسکتے، ابھی عدم اعتماد کی فضا قائم ہے اس لیے ہمیں قدم بہ قدم بڑھنا ہوگا۔

سوال: عربوں اور اسرائیلیوں کو قربت بڑھانے سے کیا فائدہ ہوگا؟

جواب: اس سے خطہ مضبوط معاشی بلاک بن کر ابھرے گا جس سے سب کو فائدہ ہوگا۔

سوال: سابق اسرائیلی وزیر اعظم گولڈا میر نے ایک بار مسلم دور کو یہودیوں کی تاریخ کا سنہری دور قرار دیا تھا۔ اب تعلقات اتنے کیوں خراب ہے؟

جواب: یہ حقیقت ہے کہ یہودی مسلم ممالک میں مسیحی ممالک سے زیادہ اطمینان سے رہے، وہ برابر نہیں تھے لیکن انہوں نے بہترین حالات میں زندگیاں گزاریں جیسے میرے خاندان نے تیونس میں۔ مسیحی ممالک میں ہمیں ہولوکاسٹ اور عدالتی تحقیقات کا سامنا کرنا پڑا۔ انہوں نے تمام یہودیوں کو جبراً مسیحی بنانے کی کوشش کی۔

سوال: کیا آپ کو نہیں لگتا کہ مسلم دنیا میں یہود مخالف جذبات میں اسلام ایک بڑی طاقت ہے؟

جواب: نہیں۔ اسلام ہرگز ہمارا دشمن نہیں۔ میں نہیں سجھتا کہ اسلام یہود مخالف ہے جبکہ 20ویں صدی تک کوئی مسئلہ نہیں تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں