مردوں کے لیے باپ بننے کی بہترین عمر کیا ہے؟

اپ ڈیٹ 03 نومبر 2018
یہ دعویٰ امریکا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آیا— شٹر اسٹاک فوٹو
یہ دعویٰ امریکا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آیا— شٹر اسٹاک فوٹو

برسوں سے خواتین کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ وہ بچوں کی پیدائش کے لیے عمر کی تیسری یا چوتھی دہائی کا انتظار مت کریں مگر اب یہ حقیقت سامنے آئی ہے کہ باپ کی عمر بھی اولاد کی صحت پر اثرانداز ہوتی ہے۔

تحقیق کے مطابق ادھیڑ عمر افراد کے بچے پیدائشی طور پر کم صحت مند ہوتے ہیں۔

یہ دعویٰ امریکا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آیا۔

مزید پڑھیں : والد کا بچے کے ساتھ زیادہ وقت گزارنا مثبت

اسٹینفورڈ یونیورسٹی کی تحقیق کے دوران 4 کروڑ سے زائد بچوں کی پیدائش کے ڈیٹا کا جائزہ لے کر والدین کی عمر اور بچے کی صحت پر اس کے اثرات کا تجزیہ کیا گیا۔

نتائج سے معلوم ہوا کہ والد کی عمر اگر 45 سال ہو تو بچوں کی قبل از وقت پیدائش، کم پیدائشی وزن اور زچگی کے بعد طبی امداد جیسے وینٹی لیشن یا دیگر کی ضرورت پڑسکتی ہے۔

تحقیق میں مزید بتایا گیا کہ والد کی عمر اگر 45 تک ہو تو بچے کی قبل از وقت پیدائش یا کم پیدائشی وزن کا خطرہ 14 فیصد تک بڑھ جاتا ہے۔

محققین کا تو یہ بھی دعویٰ ہے کہ اس عمر کے مردوں کی بیویوں میں بھی دوران زچگی ہائی بلڈ شوگر کا مسئلہ سامنے آسکتا ہے، جس کی وجہ عمر بڑھنے سے مردوں کے اسپرم میں آنے والی تبدیلیاں ہیں۔

یہ بھی پڑھیں : ماں کے پیٹ میں ہی بچے کی سرجری ممکن

محققین کا کہنا تھا کہ اس طرح کے منفی نتائج سے بچنا اس صورت میں ممکن ہے اگر مرد بچوں کی پیدائش کے لیے 45 سال تک کی عمر کا انتظار مت کریں۔

عمر بڑھنے سے ان کے مستقبل کے بچوں کے لیے خطرات بھی بڑھتے چلے جاتے ہیں اور ادھیڑ عمری میں بچوں کے خواہشمند افراد کو اس حوالے سے پہلے ڈاکٹر سے مشورہ کرنا چاہئے۔

اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے بی ایم جے میں شائع ہوئے۔

تبصرے (0) بند ہیں