محسن حسن خان کا ستارہ تقریباً 36 سال پہلے چمکا۔ یہ 1982ء کے اگست کی 12 اور 13 تاریخ تھی۔ سرزمین تھی انگلینڈ اور میدان تھا لارڈز۔ ویسے تو وہ کچھ سالوں سے قومی منظرنامے پر تھے مگر وہ قومی ٹیم سے اکثر آتے جاتے رہتے تھے، اپنی واجبی سی کارکردگی کی بنا پر نہیں بلکہ بالائی حلقے کی مرضی سے۔

انہوں نے اب تک ون ڈے انٹرنیشنل (او ڈی آئی) میچز میں اکلوتی نصف سنچری، جبکہ ٹیسٹ کرکٹ میں ایک سنچری اور ایک نصف سنچری بنائی تھی۔ لیکن اس کارکردگی کی زیادہ اہمیت نہیں تھی کیونکہ یہ ٹیسٹ میچ کمزور اور ناتجربہ کار سری لنکن ٹیم کے خلاف کھیلے گئے تھے۔

مگر انگلینڈ میں انہوں نے خود پر شک کرنے والے تمام افراد کی زبانیں ایک ڈبل سنچری سے بند کروا دیں جو نہایت آسانی اور نہایت وقار سے بنائی گئی تھی۔ اسی کارکردگی کی بنیاد پر انہیں لارڈ آف دی لارڈز کا خطاب دیا گیا۔

سالوں بعد محسن حسن خان پاکستان کرکٹ کی ہر اس چیز کے لارڈ بن چکے ہیں جس پر وہ توجہ دینا چاہیں۔ کیا اب بھی یہ آسانی اور وقار کے ساتھ ہوپائے گا؟

ان کی تازہ ترین تقرری میں جو چیز مددگار ہوگی وہ زندگی کے بارے میں ان کا تجربہ اور مشکل حالات سے بھی سرخرو ہوکر نکلنے کی ان کی صلاحیت ہے۔

ٹیسٹ کرکٹ میں سری لنکا کے خلاف ان کے پہلے 2 مناسب اسکور 1982ء میں ایک ایسی سیریز میں آئے جسے ہمیشہ کرکٹنگ کے بجائے دیگر وجوہات کی بنا پر یاد رکھا جائے گا کیونکہ یہ تب کھیلی گئی تھی جب پہلے انتخاب کے طور پر چنے گئے تمام کھلاڑیوں نے بغاوت کرتے ہوئے جاوید میانداد کی کپتانی میں کھیلنے کے بجائے باہر بیٹھنے کو ترجیح دی تھی۔

یہ بغاوت سیریز کے آخری ٹیسٹ تک ختم ہوگئی جب پس پردہ طے پانے والے سمجھوتے کے بعد میانداد جھک گئے اور عمران خان نے کپتانی سنبھال لی۔

محسن اپنی جگہ موجود رہے اور انہوں نے مدثر نذر کے ساتھ پاکستان کی چوٹی کی اوپننگ جوڑی بنائی۔ محسن اور مدثر نے ملک کی خدمت اس امتیاز کے ساتھ کی جو ٹاپ آرڈر میں بہت کم ہی دوسرے لوگ کرسکے ہیں۔

لارڈز میں اپنی شاندار کارکردگی کے بعد محسن نے آسٹریلیا میں بھی جادو کر دکھایا جہاں انہوں نے ایڈیلیڈ میں 149 اور میلبورن میں 152 رنز بنائے تھے۔ یہ دونوں اسکور دسمبر 1983ء میں ایک ایسے دورے پر بنائے گئے تھے جس میں عمران خان اور ظہیر عباس کے درمیان زبردست تنازعہ جاری تھا جس پر بعد میں سمجھوتے سے قابو پا لیا گیا۔

محسن حسن خان نیشنل اسٹیڈیم میں آسٹریلیا کے خلاف بیٹنگ کرتے ہوئے
محسن حسن خان نیشنل اسٹیڈیم میں آسٹریلیا کے خلاف بیٹنگ کرتے ہوئے

محسن یہاں سے بھی بچ نکلے۔ اگرچہ ان چند یادگار کارکردگی کے بعد محسن دوبارہ ایسی اننگز نہیں کھیل سکے مگر وہ پھر بھی ایک مناسب کرکٹر رہے یہاں تک کہ وہ اپنی وجاہت اور اپنی شخصیت سے اس قدر متاثر ہوگئے کہ انہوں نے فلم انڈسٹری میں اپنی قسمت آزمانے کا سوچ لیا۔ مگر وہ ایک الگ کہانی ہے۔

موجودہ تناظر میں جو چیز معنیٰ رکھتی ہے وہ تنازعات کے گندے تالاب میں بھی اپنا آپ باقی رکھنے کی ان کی صلاحیت ہے۔ جب گیند انگلینڈ میں جھنجھلا دینے کی حد تک ادھر ادھر جا رہی تھی اور آسٹریلیا میں پریشان کن باؤنس کر رہی تھی تب ان کی داستان کامیابی کی داستان تھی۔

اب ان کا ہیڈ کوارٹر لاہور میں ہے جہاں انہوں نے اتفاق سے اپنی 7 ٹیسٹ سنچریوں میں سے 4 بنائی تھیں۔ واضح رہے کہ لاہور ان کے لیے بحیثیت کھلاڑی موزوں تھا اور امید ہے کہ اب جب وہ پاکستان کرکٹ کو 'درست راستے' پر ڈالنے کا سفر شروع کریں گے، تو بھی یہ ان کے لیے موزوں رہے گا۔

مگر اس مرتبہ انہیں اتنا مسئلہ ان 'مخالفین' سے نہیں ہوگا جتنا کہ ان شراکت داروں کے بارے میں اپنے تبصروں سے، جن کے ساتھ کام کرنے کا انہوں نے اب فیصلہ کیا ہے۔ صاف الفاظ میں کہیں تو مکی آرتھر اور وسیم اکرم۔ اس سے پہلے کہ ہم آگے بڑھیں، یہ واضح کردینا چاہیے کہ ان سطور میں محسن کے خیالات کو شامل کرنے کی کئی مرتبہ کوششیں کی گئی تھیں اور ہمارا رابطہ فون اور ٹیکسٹ میسجز پر ہوا بھی تھا مگر وہ درست راستے کا تعین کرنے میں اتنے مصروف تھے کہ ان کے پاس کسی سوال کا جواب دینے کے لیے وقت نہیں تھا۔

بالآخر انہیں 2 سادہ سوال ٹیکسٹ میسج کے ذریعے بھیجے گئے اور انہیں کافی وقت دیا گیا اور یہ بھی سمجھایا کہ صحافتی ڈیڈلائنز کیسے کام کرتی ہیں۔ جوابات کبھی بھی نہیں آئے اور جب بھی آئیں گے، انہیں یہاں شائع کیا جائے گا۔ محسن، یہ ہمارا وعدہ ہے۔

وہ 2 سوال مندرجہ ذیل لکھے جارہے ہیں، جو کئی لوگ پوچھ رہے ہیں:

پہلا: کیا پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کے سربراہ نے آپ سے مخصوص ثبوتوں کا تبادلہ کیا ہے جس سے آپ 'داغدار' کھلاڑیوں کے بارے میں قائل ہوگئے؛ ایسے ثبوت جو عوام کے سامنے نہیں لائے گئے؟

دوسرا: آپ مکی آرتھر پر تنقید کرتے رہے ہیں۔ کیا آپ پہلے اس بارے میں کچھ کرنا چاہیں گے یا آپ کی پہلی ترجیح ڈومیسٹک کرکٹ ہوگی؟

اس مسئلے پر ان کے خیالات سے قطع نظر، احسان مانی نے کرکٹ کمیٹی کے ارکان کو متعارف کرواتے ہوئے بریفنگ میں جو کچھ کہا وہ اپنے انتخاب کی توجیہہ کے لیے معاملات کو انتہائی سادہ بنا کر پیش کرنا تھا۔

میچ فکسنگ پر جسٹس قیوم کی رپورٹ ایک مشہور دستاویز ہے جس کا حوالہ عالمی کرکٹ میں 18 سال سے دیا جا رہا ہے۔ اسے ’بے نتیجہ دستاویز‘ قرار دینا اس کی اہمیت گھٹانے کی ایک شرمناک کوشش تھی۔ اسے تحریر کرنے والا شخص ابھی بھی زندہ ہے اور پی سی بی کے فائدے کے لیے اس سے اپنی رپورٹ کی تشریح کرنے کے لیے کہا جا سکتا تھا۔

اس کے علاوہ وہ لوگ جنہوں نے چاہا، انہوں نے اسے عدالتوں میں چیلنج بھی کیا اور مختلف مقدمات میں ریلیف بھی پایا۔ فیصلے کو چیلنج نہ کرنا قانونی اور اخلاقی طور پر غلطی کا اعتراف ہے۔ پی سی بی نے مانی کے گزشتہ مؤقف سے دستبردار ہوکر اچھا کیا۔

ویسٹ انڈیز کے باؤلر کے خلاف محسن خان مشکل کا سامنا کرتے ہوئے
ویسٹ انڈیز کے باؤلر کے خلاف محسن خان مشکل کا سامنا کرتے ہوئے

یہ دلیل کہ رپورٹ میں جن دیگر لوگوں کے نام ہیں وہ پاکستان اور بیرونِ ملک مختلف صلاحیتوں میں خدمات سرانجام دے چکے ہیں، اسے بھی مناسب نکتہ نظر سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ دوسروں پر جرمانے بھی عائد کیے گئے تھے۔ وسیم اکرم پر جرمانہ عائد کیا گیا تھا اور سفارش کی گئی تھی کہ انہیں بااختیار عہدوں سے دور رکھا جائے اور تفتیش کی جائے کہ آیا ان کا طرزِ زندگی ان کی ڈکلیئر کی گئی آمدنی سے مطابق رکھتا ہے یا نہیں۔

آپ دیکھ سکتے ہیں کہ فرق موجود ہے۔ اس موقع پر وسیم کے الفاظ — "۔۔۔ یہ سب کچھ ماضی کی بات ہے" — کو شاید ہی ملک کے بلند ترین انتظامی دفتر سے منظوری ملے جس نے بار بار یہ واضح کردیا ہے کہ کسی کے لیے بھی کوئی این آر او (سمجھوتہ پڑھا جائے) نہیں ہوگا۔

ویسے بھی محسن اور وسیم ایک دوسرے کے مخالف رہے ہیں۔ جب محسن نے قومی کوچ کے لیے درخواست دینے سے صرف اس لیے انکار کردیا کیونکہ درخواستوں کی جانچ وسیم اکرم اور رمیز راجہ نے کرنی تھی، تو وسیم اکرم نے عوامی سطح پر سخت الفاظ سے کام لیا۔ ’یہ کس طرح کا رویہ اور ذہنیت ہے؟ ایک سابق کھلاڑی [ظاہر ہے محسن] نے کہا ہے کہ میں براہِ راست چیئرمین سے بات کروں گا اور انہیں درخواست دوں گا۔ جب آپ کی ذہنیت یہ ہو تو آپ کیسے امید کرسکتے ہیں کہ وہ پاکستانی ٹیم کے ساتھ اچھی طرح کام کریں گے؟‘

دلچسپ بات یہ ہے کہ اب دونوں ذہنیتیں ایک ساتھ بیٹھی ہیں تاکہ چیزیں درست کرسکیں، آپس میں نہیں بلکہ بورڈ اور ٹیم میں۔

اور جہاں تک مکی کی بات ہے تو انہیں وسیم اور رمیز کی کمیٹی نے چنا تھا اور محسن کبھی بھی اس انتخاب سے متاثر نہیں رہے ہیں اور انہوں نے حال ہی میں انہیں ’بے وقوف‘ اور ’گدھا‘ کہا ہے۔ ہم فانی افراد اس کا فیصلہ نہیں کرسکتے کہ آیا مکی ان الفاظ کے مستحق تھے یا نہیں، مگر یہاں مقصد یہ ہے کہ معاملات ابھی تک تناؤ کا شکار ہیں کیونکہ میڈیا کی اطلاعات کے مطابق مکی نے واضح کردیا ہے کہ وہ کمیٹی سے صرف تب رابطہ و ملاقات کریں گے جب محسن غیر مشروط معافی پیش کریں گے۔

کیا وہ ایسا کریں گے؟ جیسے ہی محسن ٹیکسٹ میسج کا جواب دیں گے تو وہ یہاں پیش کردیا جائے گا۔ لہٰذا جب تک انتظار کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں۔


یہ مضمون ڈان اخبار کے ایئوس میگزین میں 4 نومبر 2018 کو شائع ہوا۔

انگلش میں پڑھیں۔

تبصرے (3) بند ہیں

riz Nov 06, 2018 04:22pm
aisi committee banani hi nahi chahiye. ikhtyarat ka khulla tazad hai. bas aaj kal riwaj chala hua committees ka tu cricket ki bhi aik sahi.
اورنگ Nov 07, 2018 04:59am
کیا بات ہے حمیر۔ بہت عمدہ۔
عمران Nov 07, 2018 04:58pm
کالم نگار کیا کہنا یا سمجھانا چارہے ہیں کوئی بات پلے نہیں پڑی۔ جہاں تک محسن حسن خان کی بات ہے، وہ ایک ایڈوائزری باڈی کے چئیرمین بنائے گئے ہیں انکو کوئی مطلق العنان بادشاہ مقرر نہیں کیا گیا۔ ٹیسٹ کرکٹ میں کپتانی کوئی کرے گا، یا مکی آرتھر کی کوچنک انکا مسئلہ نہیں ہے ۔