جاپانی بچوں میں خودکشی کا رجحان 30 سال کی بلند ترین سطح پر

06 نومبر 2018
گھریلو مسائل اور مستقبل کے حوالے سے پریشانی کو خودکشی کی بنیادی وجہ بتایا گیا ہے— فائل فوٹو
گھریلو مسائل اور مستقبل کے حوالے سے پریشانی کو خودکشی کی بنیادی وجہ بتایا گیا ہے— فائل فوٹو

جاپان کی وزارت تعلیم نے انکشاف کیا ہے کہ ملک کے بچوں میں خودکشی کی شرح 30 سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے۔

وزارت تعلیم کی جانب سے جاری بیان میں بتایا گیا کہ 17-2016 کے مارچ تک مالی سال کے دوران ایلیمینٹری سے ہائی اسکول کے 250 بچوں نے اپنی جان لی، جبکہ گزشتہ سال اسی عرصے میں 245 بچوں نے خودکشی کی تھی۔

جاپان میں یہ گزشتہ 30 سالوں میں خوکشی کرنے والے بچوں کی سب سے بڑی تعداد ہے جہاں اس سے قبل سب سے زیادہ خودکشی کے واقعات 1986 میں دیکھے گئے تھے جب 268 بچوں نے اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیا تھا۔

بچوں نے اس کی وجہ گھریلو مسائل، مستقبل کے حوالے سے پریشانی اور دیگر لوگوں کی جانب سے مذاق بنانا بتایا ہے۔

تاہم دوسری جانب اسکول انتظامیہ کا کہنا ہے کہ 250 میں سے 140 بچوں کی خودکشی کی وجہ معلوم نہ ہو سکی کیونکہ انہوں نے اپنی موت سے قبل کوئی خط یا نوٹ لکھ کر وجوہات سے آگاہ نہیں کیا تھا۔

2015 میں جاپانی کابینہ کے دفتر سے جاری ایک رپورٹ میں 1972 سے 2013 کے درمیان خودکشی کرنے والے بچوں کی اموات کا جائزہ لینے کے بعد کہا گیا تھا کہ یکم ستمبر کو اسکول کے آغاز کے موقع پر خودکشی کا رجحان عروج پر ہوتا ہے۔

عالمی ادارہ صحت کے مطابق 2015 میں جاپان کا شمار ان ملکوں میں کیا گیا تھا جہاں خود کشی کا تناسب سب سے زیادہ تھا لیکن احتیاطی تدابیر اور حکومتی اقدامات کے بعد اس میں واضح کمی دیکھی گئی ہے۔

2003 میں جاپان کی تاریخ میں سب سے زیادہ 34 ہزار 500 لوگوں نے خودکشی کی تھی لیکن 2017 میں یہ تعداد کم ہو کر 21 ہزار تک پہنچ گئی تھی البتہ ملک میں بچوں خصوصاً طلبہ میں خودکشی کے رجحان میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں