کراچی: سندھ ہائیکورٹ نے ایک کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے ہیں کہ لاپتا افراد کے معاملے میں پیش رفت نہ ہونے پر پولیس افسران کو جیل بھیجیں گے۔

سندھ ہائیکورٹ میں جسٹس نعمت اللہ پھلپھوٹو نے لاپتا افراد کے معاملے پر کیس کی سماعت کی۔

اس دوران عدالت نے پولیس کی جانب سے لاپتا افراد کی عدم بازیابی سے متعلق رپورٹس پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ پولیس رپورٹس سے عوام مایوس ہوچکے ہیں۔

مزید پڑھیں: سندھ ہائی کورٹ کا لاپتا افراد کے کیسز میں اضافے پر تشویش کا اظہار

عدالت نے ریمارکس دیے کہ پولیس افسران کچھ تو خدا کا خوف کریں، لاپتا شہریوں کو جلد بازیاب کرایا جائے، ہر مرتبہ تفتیشی افسران اسٹیریو ٹائپ رپورٹ عدالت میں پیش کرتے ہیں لیکن کسی کیس میں پیش رفت نہیں ہوئی۔

جسٹس نعمت اللہ پھلپھوٹو نے ریمارکس دیے کہ اب عدالت سختی کرے گی اور لاپتا افراد کے معاملے میں پیش رفت نہ ہونے پر پولیس افسران کو جیل بھیج دیں گے۔

عدالتی ریمارکس پر تفتیشی افسر نے کہا کہ محمد جاوید نامی شخص 2015 سے سہراب گوٹھ سے لاپتا ہے، اس کی بازیابی کے لیے کوششیں کر رہے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ شہری سہیل کی گمشدگی پر رینجرز اور حساس اداروں کو خطوط لکھے لیکن جواب نہیں ملا۔

دوران سماعت پاسبان کے جنرل سیکریٹری عثمان معظم کے بیٹے سعد صدیقی کی گمشدی کی درخواست پر ایس ڈی پی کے پیش نہ ہونے پر عدالت نے برہمی کا اظہار کیا اور ایس ڈی پی گلبرگ کو شوکاز نوٹس جاری کردیا۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ اب کوتاہی سے کام نہیں چلے گا، لاپتا افراد کی بازیابی کے معاملے پر پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا سے بھی مدد لی جائے۔

یہ بھی پڑھیں: لاپتا افراد کیس: انصاف نہ ملنے پر خاتون کی کمرہ عدالت میں خودسوزی کی کوشش

بعد ازاں عدالت نے لاپتا افراد کے معاملے پر پولیس، رینجرز، سندھ حکومت اور دیگر فریقین سے 9 جنوری 2019 تک پیش رفت رپورٹ طلب کرلی۔

خیال رہے کہ ملک کی مختلف عدالتوں میں لاپتا افراد سے متعلق سیکڑوں مقدمات زیر سماعت ہیں جبکہ 24 جون 2018 کو چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے کمرہ عدالت میں لاپتا افراد کی چیخ و پکار کے بعد خصوصی سیل قائم کرنے کا حکم دیا تھا۔

اس خصوصی کمیشن نے گزشتہ ماہ اپنی ایک رپورٹ عدالت میں جمع کرائی تھی، جس میں بتایا گیا تھا کہ ستمبر 2018 میں 36 لاپتا افراد کا سراغ لگایا گیا جن میں سے 13 افراد حراستی مراکز میں موجود ہیں جبکہ اس معاملے پر 74 مقدمات درج کیے گئے تھے۔

تبصرے (0) بند ہیں