احتساب عدالت نے آشیانہ ہاؤسنگ اسکینڈل میں گرفتار قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف اور مسلم لیگ(ن) کے صدر شہباز شریف کا 7 روزہ راہداری ریمانڈ منظور کرلیا۔

قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے شہباز شریف کو راہداری ریمانڈ کے حصول کے لیے لاہور کی احتساب عدالت میں پیش کیا گیا۔

واضح رہے کہ قومی اسمبلی کے اسپیکر اسد قیصر نے اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کے پروڈکشن آرڈر جاری کر رکھے ہیں، جس کے تحت انہیں 23 نومبر کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں پیش کرنا ہے۔

مزید پڑھیں: آشیانہ ہاؤسنگ اسکینڈل: شہباز شریف کے جسمانی ریمانڈ میں مزید 14 روز کی توسیع

لاہور کی احتساب عدالت میں جج سید نجم الحسن نے درخواست پر سماعت کی، اس دوران نیب پراسیکیوٹر اور شہباز شریف کے وکیل پیش ہوئے۔

سماعت کے آغاز پر نیب پراسیکیوٹر وارث علی جنجوعہ نے عدالت سے استدعا کی کہ ہمیں 7 دن کا راہداری ریمانڈ چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ اسپیکر قومی اسمبلی نے شہباز شریف کے پروڈکشن آرڈر جاری کر رکھے ہیں جبکہ 24 نومبر کو ملزم کا جسمانی ریمانڈ ختم ہورہا ہے۔

اس دوران شہباز شریف کے وکیل نے کہا کہ نیب کو 24 نومبر تک ہی راہداری ریمانڈ دیا جائے، 7 دن کے راہداری ریمانڈ کی ضرورت نہیں ہے۔

وکیل کا کہنا تھا کہ جسمانی ریمانڈ ختم ہونے پر اسلام آباد کی احتساب عدالت میں پیش کیا جائے اور اگر 24 نومبر سے پہلے قومی اسمبلی کا اجلاس ختم ہوگیا تو ان کے موکل کو لاہور کی عدالت میں پیش کیا جائے۔

دوران سماعت عدالت کی جانب سے استفسار کیا گیا کہ قومی اسمبلی کا سیشن کتنے دن کا ہے؟ جس پر شہباز شریف نے جواب دیا کہ میرے پاس اخبار ہے نہ ٹی وی اس بارے میں مجھے پتہ نہیں ہے۔

شہباز شریف نے کہا کہ اگر عدالت اجازت دے تو میں کچھ کہنا چاہتا ہوں، میرے اہل خانہ کو اس ہفتے ملنے کی اجازت نہیں دی گئی، جس دن عدالت نے حکم دیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ میں نے نیب سے یہ کہا کہ ملاقات کرنا میرا حق ہے یہ آپ کا احسان نہیں لیکن نیب نے میرے اہل خانہ سے میری ملاقات نہیں کرائی، اس پر نیب نے جواب دیا کہ جب کوئی ملنے نہیں آئے گا تو ہم کیسے ملاقات کرائیں۔

اس موقع پر عدالت نے حکم دیا کہ شہباز شریف کی ایک ہفتے میں ایک بار اہل خانہ سے ضرور ملاقات کرائی جائے۔

شہباز شریف نے کہا کہ میری بہو نے ملک سے باہر جانا تھا، اسے مجھ سے ملنے نہیں دیا گیا، نیب نے جتنے بھی جسمانی ریمانڈ لیے کچھ بھی حاصل نہیں کرسکے، میں اللہ کو حاضر ناظر جان کر کہتا ہوں کہ میں نے ایک دھیلے کی بھی کرپشن نہیں کی۔

اس پر نیب پراسیکیوٹر نے اعتراض کیا کہ آج کیس کے میرٹ پر بات نہیں ہو رہی آج صرف راہداری ریمانڈ کا کیس ہے۔

بعد ازاں عدالت نے شہباز شریف کا 7 روز کا راہداری ریمانڈ منظور کرتے ہوئے ڈی جی نیب کو شہباز شریف کے اہل خانہ سے قانون کے مطابق ملاقات کرانے اور ان کا طبی معائنہ کرانے کا بھی حکم دیا۔

قبل ازیں جانب شہباز شریف کی پیشی کے موقع پر احتساب عدالت اور اطراف میں سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے تھے۔

پولیس کی بھاری نفری عدالت کے اطراف موجود تھی جبکہ سڑکوں کو بھی کنٹینرز لگا کر بند کیا گیا تھا۔

شہباز شریف کی گرفتاری اور ریمانڈ

واضح رہے کہ 5 اکتوبر کو نیب لاہور نے سابق وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کو صاف پانی اسکینڈل کے حوالے سے بیان ریکارڈ کرانے کے لیے طلب کیا تھا، تاہم انہیں آشیانہ ہاؤسنگ اسکینڈل میں گرفتار کرلیا گیا تھا۔

بعد ازاں 6 اکتوبر کو انہیں احتساب عدالت میں پیش کیا تھا، جہاں ان کے 15 روزہ جسمانی ریمانڈ کی درخواست کی تھی لیکن عدالت نے 10 روزہ ریمانڈ پر انہیں نیب کے حوالے کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: آشیانہ ہاؤسنگ اسکینڈل: شہباز شریف کے جسمانی ریمانڈ میں مزید 14 روز کی توسیع

16 اکتوبر کو 10 روزہ ریمانڈ ختم ہونے پر مسلم لیگ (ن) کے صدر اور سابق وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کو دوبارہ عدالت پیش کیا گیا تھا، جہاں ان کے جسمانی ریمانڈ میں مزید 14 روز کی توسیع کردی گئی۔

اس کے بعد 29 اکتوبر کو انہیں دوبارہ عدالت پیش کیا گیا جہاں 7 نومبر تک ان کا جسمانی ریمانڈ دیا گیا جبکہ 3 روز کا راہداری ریمانڈ بھی دیا گیا۔

بعد ازاں قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لیے انہیں اسلام آباد لے جایا گیا، جہاں 31 اکتوبر کو پہلے ان کے راہداری ریمانڈ میں 6 نومبر توسیع کی گئی تھی، جسے بعد میں عدالت نے بڑھا کر 10 نومبر تک کردیا تھا۔

10 نومبر کو شہباز شریف کو دوبارہ عدالت میں پیش کیا گیا تھا، جہاں ان کے جسمانی ریمانڈ میں مزید 14 روز کی توسیع کردی گئی تھی۔

آشیانہ اسکینڈل میں شہباز شریف پر الزامات

5 اکتوبر کوشہباز شریف کی گرفتاری کے بعد نیب نے بیان میں کہا گیا تھا کہ شہباز شریف نے آشیانہ ہاؤسنگ اسکیم کا کنٹریکٹ لطیف اینڈ سنز سے منسوخ کر کے کاسا ڈویلپرز کو دیا جس سے قومی خزانے کو کروڑوں روپے کا نقصان ہوا جس کے لیے مزید تفتیش درکار ہے۔

شہباز شریف کو نیب نے جنوری 2016 میں پہلی مرتبہ طلب کیا تھا، ان پر الزام تھا کہ انہوں نے چوہدری لطیف اینڈ کمپنی کا ٹھیکہ منسوخ کرنے کے لیے دباؤ کا استعمال کیا اور لاہور کاسا کپمنی کو جو پیراگون کی پروکسی کپمنی تھی کو مذکورہ ٹھیکہ دیا۔

مزید پڑھیں: شہباز شریف 10 روزہ جسمانی ریمانڈ پر نیب کے حوالے

نیب کے بیان میں کہا گیا تھا کہ شہباز شریف کے اس غیر قانونی اقدام سے سرکاری خزانے کو 19 کروڑ روپے کا نقصان ہوا۔

شہباز شریف پر یہ بھی الزام ہے کہ انہوں نے پی ایل ڈی سی پر دباؤ ڈال کر آشیانہ ہاؤسنگ اسکیم کا تعمیراتی ٹھیکہ ایل ڈی اے کو دلوایا لیکن ایل ڈی اے منصوبہ مکمل کرنے میں ناکام رہا اور اس سے 71 کروڑ روپے سے زائد کا نقصان ہوا۔

یہ بھی یاد رہے کہ آشیانہ ہاؤسنگ اسکینڈل میں شہباز شریف سے قبل فواد حسن فواد، سابق ڈی جی ایل ڈی اے احد چیمہ، بلال قدوائی، امتیاز حیدر، شاہد شفیق، اسرار سعید اور عارف بٹ کو نیب نے اسی کیس میں گرفتار کیا تھا جبکہ دو ملزمان اسرار سعید اور عارف بٹ ضمانت پر رہا ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں