پنجاب: بچوں کے جنسی استحصال میں اضافے پر تشویش کی لہر

اپ ڈیٹ 26 نومبر 2018
صرف 9 ماہ کے عرصے میں پنجاب میں بچوں کے جنسی استحصال کے ایک ہزار سے زائد واقعات رپورٹ ہوئے—فائل فوٹو
صرف 9 ماہ کے عرصے میں پنجاب میں بچوں کے جنسی استحصال کے ایک ہزار سے زائد واقعات رپورٹ ہوئے—فائل فوٹو

راولپنڈی : رواں برس ستمبر تک پنجاب میں 10سال سے کم عمر کے بچوں کے جنسی استحصال کے ایک ہزار ایک سو 9 کیسز رپورٹ ہونے کے بعد پولیس میں تشویش کی لہر دوڑ گئی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ان واقعات میں غیر معمولی اضافے کے باعث صوبائی حکومت کی جانب سے پولیس کو ہدایت کی گئی کہ اس قسم کے واقعات میں ملوث افرادکے خلاف اسی قسم کے اقدامات کیے جائیں جیسا کہ انسدادِ دہشت گردی کی واچ لسٹ میں شامل افراد کے خلاف کیے جاتے ہیں۔

واضح رہے کہ واچ لسٹ میں ہر فرد کے لیے لازم ہے کہ وہ علاقہ چھوڑنے سے قبل اور واپس آنے پر متعلقہ پولیس اسٹیشن کو آگاہ کرے۔

یہ بھی پڑھیں: جنوری تا جون 2018: یومیہ 12 سے زائد بچوں کے جنسی استحصال کا انکشاف

چناچہ بچوں کے استحصال میں ملوث تمام افراد جو قید میں ہیں یا رہا کردیےگئے ان کامکمل ریکارڈ متعلقہ پولیس اسٹیشن اور ضلعی ہیڈ کوارٹر کی سطح پر مرتب کرنے کی ہدایت کی گئی اس کے ساتھ پولیس کو ان ملزمان سے ضمانتی رقم لینے کی بھی ہدایت کی گئی۔

اس کے ساتھ پولیس کو بچوں کی برہنہ تصاویر، ویڈیو اور دیگر ممنوعہ مواد کی فروخت پر بک شاپس، انٹرنیٹ کیفے، موبائل فون شاپس پرچھاپے کے لیے اسپیشل برانچ سے مدد لینے کی ہدایت کی گئی۔

اس سلسلے میں انسپکٹر جنرل پولیس (آئی جی پی) امجد جاوید سلیمی نے صوبے بھر کی پولیس کو ہدایت کی کہ اگر کوئی اس قسم کا ملزم پولیس سے کیریکٹر سرٹیفکیٹ حاصل کرنا چاہے تو اس میں واضح طورپر لکھا جائے کہ ’بچوں کے جنسی استحصال میں ملوث‘ اور اس کے ساتھ اندراج مقدمہ کا بھی حوالہ دیا جائے۔

مزید پڑھیں: ریپ کے شکار بچے

اس سلسلے میں ہر ضلع کا تفتیشی سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس ایس پی) یا سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس پی) بچوں کے جنسی استحصال کے کیس کی تفتیش میں فوکل پرسن ہوگا جبکہ پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی، جو ہر ضلع میں دستیاب ہوگی، اس بات کو یقینی بنائے گی کہ تمام فرانزک شواہد اکٹھے کیے گئے۔

علاوہ ازیں اس قسم کے کیسز میں زبانی طور پر عدالت سے باہر کی جانے والی سیٹلمنٹ کی حوصلہ شکنی کی جائے گی اور اگر گرفتار کیے گئے ملزم کے پاس سے کوئی موبائل فون برآمد ہوا تو اسے تحقیقات کا حصہ بناتے ہوئے فرانزک سائنس لیبارٹری میں بھیجا جائے گا۔

اس قسم کے کیسز کی تحقیقات کرنے والے افسران کو خصوصی طور پر ہدایت کی گئی کہ وہ متاثرہ بچے کے والدین یا سرپرست سے نرمی کے ساتھ پیش آئیں۔

یہ بھی پڑھیں: بچوں کے جنسی استحصال پرسخت سزا کا بل مسترد

کیس کی تحقیقات کسی طور سب انسپکٹر سےکم درجے کے سرکاری اہلکار کے سپرد نہ کی جائے اور استغاثہ اور عدلیہ کی معاونت سے ٹرائل مکمل کیا جائے۔

آئی جی پی نے ہدایت کی کہ بچوں کے استحصال کے حوالے سے شکایت موصول ہوتے ہی مقدمہ درج کر کے ملزم اور بچے کو میڈیکو لیگل معائنہ کے لیے ہسپتال منتقل کیا جائے اور تشدد کے نشانات اور جمع کیے جانے والے شواہد کو احتیاط سے محفوظ کیا جائے۔

بچوں کا جنسی استحصال ایسا گھناؤنا جرم ہے جس سے معاشرے میں خوف و انتشار کی لہر دوڑ جاتی ہے اور اس کے اثرات بچے کی پوری زندگی پر محیط ہوتے ہیں۔

مزید پڑھیں: پاکستان میں 2016 میں یومیہ 11 بچوں کا جنسی استحصال

خیال رہےکہ سماجی دباؤ کے پیشِ نظر زیادہ تر کیسز میں جنسی استحصال کی شکایت پولیس کو کی ہی نہیں جاتی جس کی وجہ سے پولیس کے پاس اس قسم کے جرائم کے صحیح اعداد و شمار موجود نہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں