صوبہ پنجاب کے شہر سرگودھا میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے چیئرمین ٹیکنوکریٹ سعید نیازی کی اہلیہ کی جانب سے 14 سالہ گھریلو ملازمہ پر مبینہ تشدد کا واقعہ سامنے آیا ہے۔

تنزیلہ نامی گھریلو ملازمہ نے الزام عائد کیا ہے کہ گھر کی مالکن عظمیٰ اسے بدترین تشدد کا نشانہ بناتی تھی،یہاں تک کہ 5 ماہ تک انہیں والدین سے ملنے بھی نہیں دیا گیا تھا۔

بچی کا کہنا تھا کہ سعید نیازی نجی بینک میں ملازم ہیں۔

تنزیلہ کے اہلِ خانہ نے الزام عائد کیا ہے کہ تنزیلہ پر بدترین تشدد کے بعد مالکان اسے جنرل بس اسٹینڈ پر پھینک کر فرار ہو گئے تھے۔

انہوں نے یہ الزام بھی عائد کیا ہے کہ تنزیلہ کی مالکن اسے گرم استری اور پائپ سے تشدد کا نشانہ بھی بناتی رہیں۔

تنزیلہ کے اہلِ خانہ نے تشدد کرنے پر مالکان کے خلاف قانونی کارروائی کے لیے پولیس تھانہ کینٹ میں تحریری درخواست جمع کروادی۔

مزید پڑھیں : لاہور : 11 سالہ ملازمہ پر تشدد میں ملوث میاں بیوی گرفتار

واضح رہے کہ گھریلو ملازمین، خاص طور پر کم عمر گھریلو ملازمین، پر تشدد کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے اس سے قبل بھی متعدد ایسے واقعات منظر عام پر آتے رہے ہیں۔

اس سے قبل اکتوبر میں راولپنڈی میں خاتون فوجی افسر اور ان کے ڈاکٹر خاوند کی جانب سے 11 سالہ گھریلو ملازمہ کنزہ پر مبینہ تشدد کا واقعہ سامنے آیا تھا۔

کنزہ نے الزام لگایا تھا کہ میجر عمارہ ریاض اور ان کے شوہر بھوکا رکھتے اور وائر، بیلٹ اور رسی سے گزشتہ ایک سال سے تشدد کا نشانہ بنارہے تھے۔

اس سے قبل ستمبر میں سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی تھی جس میں دیکھا گیا تھا کہ خاتون چائے میں پتی زیادہ ڈالنے پر کم عمر ملازمہ کو تشدد کا نشانہ بنا رہی تھیں۔

جس پر وفاقی وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری نے نوٹس لیتے ہوئے وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے کو تشدد کرنے والی خاتون کی شناخت کی ہدایت جاری کردی تھی۔

یہ بھی پڑھیں : ملازمہ پر تشدد کا الزام، ساہیوال کے ڈپٹی کمشنر کے خلاف مقدمہ درج

6 جون 2018 کو اسلام آباد کی زنانہ پولیس نے ساہیوال کی ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر (جنرل) کنول بھٹو کے خلاف نو عمر ملازمہ پر تشدد کرنے کے الزام پر مقدمہ درج کرلیا تھا۔

واقعہ سے متعلق بتایا گیا تھا کہ اسلام آباد میں بنی گالا میں مقیم کنول بھٹو نے مبینہ طور پر 18 سالہ ملازمہ پر ان کی بیٹی کو نہلانے کے دوران رلانے پر تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔

علاوہ ازیں کمسن ملازمہ طیبہ پر تشدد کا معاملہ دسمبر 2016 کے آخر میں اُس وقت منظر عام پر آیا تھا، جب تشدد زدہ بچی کی تصاویر سوشل میڈیا پر گردش کرنے لگی تھیں۔

تبصرے (0) بند ہیں