وزیراعظم عمران خان نے میڈیا کو حکومتی کارکردگی پر نظر رکھنے کی حمایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ میں چاہتا ہوں کہ اگر میرا کوئی وزیر غلط کام کر رہا ہے تو وہ ایکسپوز ہو لیکن مجھے چیف جسٹس کی اس بات پر افسوس ہے کہ انہوں نے کہا کہ اقربا پروری ہو رہی ہے۔

سینئر صحافیوں کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ جمہوریت میں آپ کو شفاف ہونا پڑتا ہے کہ میڈیا آپ کے غلط کام کو دیکھے، میں یہ چاہتا ہوں ہماری حکومت اتنی شفات ہو جتنی کوئی اور حکومت نہ رہی ہو۔

وزیراعظم کا کہنا تھاکہ جمہوری نظام میں شہری حکومت کا احتساب کرتے ہیں، میرا کوئی وزیر کوئی غلط کام کرتا ہے تو میں چاہتا ہوں کہ وہ ظاہر ہو۔

انہوں نے کہا کہ 100 روز میں بڑی کامیابیاں حاصل نہیں ہوسکتیں لیکن ہم نے سمت دے دی ہے اور ہم وہ پالیسی بنانا چاہتے ہیں جو نچلے اور غریب طبقے کے لیے ہو، اس وقت ہمارا پورا نظام ایک چھوٹے طبقے کو فائدہ پہنچانے کے لیے ہے۔

وزیراعظم نے کہا کہ تعلیم کے شعبے میں بہتری لانے کے لیے بھرپور کام کر رہے ہیں، صحت کارڈ کو ملک بھر میں غریب طبقے کو دے رہے ہیں، غریب عوام کے لیے انصاف کے حصول کو آسان بنانے کے لیے قانونی اصلاحات کر رہے ہیں۔

سینئر صحافی حامد میر کے سوال پر عمران خان نے مرغیوں اور انڈوں سے متعلق اپنے بیان اور ڈالر کی بڑھتی قیمت کے حوالے سے کہا کہ 'اسٹیٹ بینک نے روپے کی قدر میں کمی کا جو فیصلہ کیا وہ مجھے اچھا نہیں لگا کیونکہ اس فیصلے میں تھوڑی تاخیر بھی کی جاسکتی تھی لیکن چونکہ مرکزی بینک اپنے فیصلوں میں آزاد ہے اس لیے حکومت کی دخل اندازی کے بغیر اپنے طور پر فیصلہ کیا'۔

پی آئی اے اور اسٹیل ملز کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ 'ہم نے ان کو ہولڈنگ میں لے کر کارپویشن کے تحت چلانا ہے جو مسائل آئے ہیں وہ ساڑھے 18 ارب کے خسارے کے باعث پہلے روز سے فائٹنگ کرنا پڑتی ہے'۔

یہ بھی پڑھیں:ٹرمپ کا عمران خان کو خط، افغان طالبان کو مذاکرات کیلئے آمادہ کرنے کی درخواست

اعظم سواتی کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ اس پر ہمارا کوئی عمل دخل نہیں ہے کیونکہ وزارت داخلہ کا قلم دان میرے پاس ہے، بنی گالا پر کارروائی ہورہی تھی اگر چاہتا تو میں مداخلت نہیں کرسکتا لیکن ایسا کچھ نہیں کیا گیا۔

جے آئی ٹی کی رپورٹ سے لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آپ بے فکر رہیں جو بھی سپریم کورٹ کہے گا اس پر عمل ہوگا اور اگر اعظم سواتی کی غلطی ہوئی تو وہ خود استعفیٰ دیں گے۔

'چیف جسٹس سے ایک شکایت ہے'

ڈی پی او پاکپتن کے حوالے سے سوال کیا گیا اور پوچھا گیا کہ 'سپریم کورٹ میں وزیراعلیٰ پنجاب نے غلطی تسلیم کی لیکن آپ کی طرف سے کوئی ردعمل نہیں آیا تو ان کا کہنا تھا کہ یہ معاملہ سپریم کورٹ میں ہے اور عثمان بزدار پنجاب کے چیف ایگزیکٹیو ہیں ان کے پاس ایک شہری آکر رپورٹ کرتا ہے اور ٹھیک رپورٹ کرتا ہے کہ پولیس نے زیادتی کی ہے تو ایک چیف ایگزیکٹو کیا پولیس افسر کو بلا کر کیا پوچھ نہیں سکتا یہ کون سی دنیا میں ہوتا ہے'۔

عمران خان نے کہا کہ 'چیف جسٹس نے کئی زبردست کام کیے ہیں لیکن مجھے تھوڑا اعتراض ہے ان پر کہ ایک صوبے کا چیف ایگزیکٹیو ہے وہ پوچھ رہا ہے کیا غلطی کررہا ہے کوئی کہے کہ کسی کی بیٹی کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے تو وہ پوچھے نہیں وہ اس کا ذمہ دار ہے'۔

وزیراعظم نے کہا کہ 'مجھے افسوس ہوا کہ انہوں نے زلفی بخاری کو سپریم کورٹ میں کہا کہ میں نے اقرباپروی کی ہے میں اس چیز کو اس لیے رعایت دیتا ہوں کہ میں دس برس تک پاکستان ٹیم کا کپتان رہا کوئی مجھے بتائے کہ میں نے ایک رشتہ دار، دوست کو سپورٹ کیا، نمل یونیورسٹی میں بتائے، شوکت خانم میں بتائے اور پشاور میں بتائے کہ ایک آدمی کو اقربارپروری یا فیورٹ کے طور پر لیا'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'مجھے خیبرپختونخوا میں حکومت کو پانچ سال ہوئے مجھے بتائیں کہ میں نے ایک رشتہ دار، دوست کو کوئی پوزیشن دی ہو مجھے اس کا بڑا افسوس ہوا کہ چیف جسٹس صاحب نے سپریم کورٹ میں کہا کہ یہ اقربا پروری ہوئی ہے'۔

وزیراعظم نے کہا کہ 'میں نے آج تک کسی ادارے میں کسی قسم کی مداخلت نہیں کی، میری بہن کا نام آرہا ہے، پوچھیں میں نے کسی سےمداخلت کی'۔

ان کا کہنا تھا کہ پنجاب کو ایسا وزیراعلیٰ ملا نہیں جو ہر وقت دستیاب ہیں اور اس کے دروازے ہر وقت کھلے ہیں اور لوگ آتے ہیں اور انہوں نے ڈی پی او پاکپتن کا تبادلہ کیا نہیں بلکہ اس وقت کے آئی جی نے کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ادارے بننے چاہیئں اور طاقت ور بورڈز بننے چاہیئں جو اداروں کو آزادانہ طور پر چلائیں یہ ہر جگہ ہے اور ہم کریں گے۔

'لاپتہ افراد کا مسئلہ'

اختر مینگل کے ساتھ لاپتہ افراد کے حوالے سے معاہدے پر بات کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ 'جیسے انہوں نے بات کی تو ظاہر ہے مجھے فوج سے بات کرنا پڑا کیونکہ بلوچستان میں دہشت گردی ہے اور بھارت کی مداخلت ہے، جنرل باجوہ نے مجھے واضح طور پر کہا کہ ہم نے ان کے اتنے لوگ چھوڑے ہیں'۔

عمران خان نے کہا کہ 'جنرل باجوہ نے کہا کہ کئی کو شناخت کر رہے ہیں وہ ہیں نہیں یا پاکستان میں نہیں ہیں'۔

انہوں نے کہا کہ 'میں نے اخترمینگل سے کہا کہ ملاقات رکھتے ہیں لیکن اخترمینگل کسی وجہ سے نہیں آئے، میں نے اپنی میٹنگ کرادی تھی اور ہمیں جنرل باجوہ کی طرف سے ہر طرح کی یقین دہانی ہے کہ ہم لاپتہ افراد کے حوالے سے ہر قسم کی مدد کرنے کو تیار ہیں'۔

وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان اور ہندوستان کو اپنے مسئلے حل کرنے کے دو ہی طریقے ہیں یا تو مذاکرات کریں یا پھر جنگ کریں لیکن کوئی تصور نہیں کرسکتا ہے کہ دو ایٹمی قوتیں آپس میں جنگ کی طرف جائیں کیونکہ جب ایک دفعہ جنگ شروع ہوئی تو غیر ارادی طور پر نتائج آتے ہیں کیونکہ جنگ آپ کے کنٹرول سے باہر نکل جاتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ مسئلہ مذاکرات سے ہی حل ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ کشمیر کے مسئلے پر ان کا کہنا تھا کہ وزیرخارجہ کا گگلی کے حوالے سے بیان کا مطلب بھی اسی حوالے سے تھا کیونکہ کرتار پور کے بعد ہندوستان کو ہمارے خلاف نفرت پیدا کرنا مشکل ہوگیا ہے اور ان کو اپنے عوام سے پروپیگنڈا کرنا مشکل ہوگیا ہے۔

'فوج پی ٹی آئی کے منشور کے ساتھ کھڑی ہے'

عمران خان نے این آر او مانگنے کے حوالے سے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ اسمبلی کے پہلے ہی روز دھاندلی پر احتجاج کیا اور جس طرح کی زبان استعمال کی جاتی ہے بتائیں میرا کیا قصور ہے لیکن وہ مجھ سے یہ سننا چاہتے ہیں کہ جمہوریت کے لیے ہم سب اکھٹے چلیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت کے پاس بہت سے اختیارات ہیں اور بہت کچھ کرسکتی ہے، اس وقت سپریم کورٹ اپنے طور پر کام کر رہا ہے اور اس وقت پاکستان کی فوج پی ٹی آئی کے منشور کے ساتھ کھڑی ہے اور کرتار پور پر بھی ہمارے ساتھ پوری طرح کھڑے ہیں۔

وزیراعظم نے کہا کہ 'ہمیں اس وقت کوئی مسئلہ نہیں ہے یہ پہلے ہوتا تھا کہ ملٹری سول تناؤ ہمیں تو کوئی مسئلہ نہیں ہے'۔

ایک سوال کہ کرتار پور کھولنے کے لیے ماضی کی حکومتیں ناکام رہیں لیکن آپ نے ایسا کیسے کیا تو ان کا کہنا تھا کہ ہم اور ہندوستان دو الگ قومیں ہیں لیکن کوئی وجہ نہیں ہے کہ ہم کاروبار نہ کریں۔

اسٹبلشمنٹ کے کردار پر کیے گئے سوال پر وزیراعظم نے کہا کہ اوباما افغانستان سے واپسی کرنا چاہتا تھا لیکن وہ پینٹاگون سے پوچھتا رہا۔

ان کا کہنا تھا کہ جہاں سیکیورٹی کی صورت حال ہوگی وہاں اسٹبلشمنٹ کا کردار ہوگا اور جنرل باجوہ کی اسٹبلشمنٹ مکمل طور پر جمہوری ہے اور تمام فیصلے میرے ہیں اور میرا ایک بھی فیصلہ ایسا نہیں جس کے پیچھے فوج نہ ہو۔

'سرمایہ کاروں کو برا بھلا کہا جاتا ہے'

کاروباری شخصیات کو اداروں کی جانب سے مبینہ طور پر تنگ کرنے کے حوالے سے صحافی معید پیرزادہ نے سوال کیا جس پر انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ایک کلچر بن گیا ہے 22 خاندانوں میں دولت چلی گئی اور میں نے خود سنا ہے کہ سرمایہ کار کو برا بھلا کہا جاتا ہے۔

عمران خان نے کہا کہ جب تک کاروباری افراد کو منافع کمانے کے لیے تعاون نہیں کریں گے تو کامیاب نہیں ہوسکتے ہیں اور اسی طرح سرمایہ کاری بھی آئیں گے۔

انہوں نے کہا کہ اینٹی کرپشن کا نظام میں نے ایجاد نہیں کیا بلکہ چین میں 4 سو وزیروں کو پچھلے 5 برسوں میں سزا دی ہے، میری کسی کے ساتھ ذاتی لڑائی نہیں ہے بلکہ یہ ملک کے مستقبل کے لیے ضروری ہے۔

'کرپٹ، پرانی سوچ کے بیوروکریٹ غلط تاثر دے رہے ہیں'

وزیراعظم نے کہا کہ 'اس میں کوئی شک نہیں ہے پرانی سوچ کے لوگ جو بیوروکریٹس ہیں جنہوں نے اس نظام کے ذریعے اربوں پیسا بنایا اور کرپٹ نظام سے مستفید ہیں ان کو اسٹیٹس کو کہتے ہیں یہ لوگ اس نظام سے پیسہ بنا رہے تھے، یہ سبوتاژ کرنے کی پوری کوشش کررہے اور یہ تاثر دے رہے ہیں کہ حکومت زیادہ دیر نہیں چلے گی اس لیے چپ کر بیٹھے ہوئے، گوسلو پر لگے ہوئے ہیں'۔

انہوں نے کہا کہ 'نیب ہمارے نیچے نہیں ہے، نیب میرے زیر ہوتا تو آج 50 بڑے بڑے کرپٹ لوگ جیلوں کے اندر ہوتے جن کے نام میں ابھی نہیں بتاؤں گا پھر وہ شور مچا دیں گے'۔

عمران خان نے کہا کہ 'میں نیب کا اتنا بڑا دائرہ کھول دوں وہ کبھی کسی کو پکڑ رہا ہے کسی کاروباری کو پکڑ رہا ہے چھوٹی چھوٹی چیزوں پر ہاتھ ڈال رہا ہے، ملائیشیا میں کرپشن پر سزا کا تناسب 90 فیصد ہے، نیب کی 7 فیصد بھی نہیں ہے، جب اتنا دائرہ کھول دیں گے اور آپ کے پاس لوگ ہی نہیں ہیں تو وہ کیسے پکڑا جائے گا'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'جب بڑے بڑے لوگوں کو کرپشن میں پکڑتے ہیں تو نیچے ویسے ہی ٹھیک ہوجاتے ہیں'۔

وزیراعظم نے کہا کہ 'افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ نیب پر ہمارا کوئی کنٹرول نہیں ہے اور نہ ہی ہمارے کوئی لوگ اس میں بھرتی ہوئے ہیں لیکن ہم آہستہ آہستہ ایف آئی اے کو ٹھیک کررہے ہیں، ایف آئی اے کے اندر بھی ایسا ہی تھا'۔

ان کا کہنا تھا کہ جس سطح پر کرپشن ہوئی ہے اس کا ہمیں بھی اندازہ نہیں تھا اور اس کا آپ کو پتہ چلے تو حیران ہوں گے لیکن جہاں یہ رکاوٹ پیدا کریں گے تو انہیں ختم کریں گے۔

'پاکستانیوں کے 11 ارب ڈالر باہر ہیں'

وزیراعظم نے بیرون ملک سے جائیدادوں کی واپسی کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ پہلے قدم کےطور ہم نے 26 ملکوں سے معاہدوں ہوئے اور جو دستاویزات آئیں اور 11 ارب ڈالر بینک اکاؤنٹس میں موجود ہیں جو پاکستانی شہری ہیں اور اقامے کے حوالے سے پتہ چلا کہ یہ وہاں کے شہری ہیں اور ان کے اکاؤنٹس نہیں دیے جاسکتے۔

عمران خان نے کہ تین دن پہلے ہم نے سوئٹزرلینڈ سے معاہدے پر دستخط کیا ہے اور وہاں سے پوری معلومات آئیں گی اور ہمیں پتہ چلے گا کہ کس کس کے اکاؤنٹس ہیں اور پاکستانی کا غیر قانونی پیسے باہر موجود ہیں۔

گرفتاریوں کے حوالے سے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ اگر غلطی ہوئی تو وہ بچ جائیں گے اس لیے ہم تفصیل سے کام کررہے ہیں اور ڈالرز کے حوالے سے کوئی مسئلہ نہیں ہونے والا ہے.

انہوں نے کہا کہ ملائیشیا سے سب سے زیادہ سرمایہ کاری آرہی ہے۔

پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی چیئرمین شپ

قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی پر وزیراعظم نے کہا کہ 'ہم نے تو پیش کش کی ہے لیکن ادھر سے عجیب عجیب قسم کے شرائط آرہے ہیں، پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا کام ہوتا ہے کہ پارلیمنٹ کی طرف سے احتساب کرنا'۔

مزید پڑھیں:صحت کے مسائل کے باعث شہباز شریف 'ہوادار کمرے' میں منتقل

ان کا کہنا تھا کہ 'وہ شہباز شریف کو چیئرمین بنانا چاہتے ہیں وہ نیب کی جیل میں ہیں ان پر 56 کمپنیوں کا کیس ہے اب کیا ہم اپنی جمہوریت کا مذاق نہیں اڑانے لگے کہ ایک آدمی جیل سے آکر پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا چیئرمین بنے گا کیا یہ دنیا میں پاکستان اور ہماری جمہوریت کا مذاق نہیں اڑے گا ہم کہہ رہے ہیں کسی اور کو بنادیں کیونکہ ایک صاف آدمی احتساب کرسکتا ہے'۔

عمران خان کا کہنا تھا کہ 'یہ کہ رہے ہیں کہ ہم دوسری کمیٹیوں کا بھی بائیکاٹ کیا ہوا ہے اب ہم فیصلہ کر رہے ہیں ہم اپنی کمیٹیاں بنا دیں گے اگر وہ نہیں آئیں گے تو ہم نے بنا دینا ہے'۔

انہوں نے کہا کہ 'اس طرح بلیک میل کرنا اور مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ان کا پہلے دن سے یہ رویہ ہے کہ اتنا دباؤ ڈال دو کہ یہ بھی آخر میں کہیں کہ ٹھیک ہے ہم ملک چلانا چاہتے ہیں پارلیمنٹ جمہوریت کی خاطر ہم بھی آپ کو این آر او دیں گے ہم بھی کرپشن کی بات نہیں کریں گے'۔

وزیراعظم نے کہا کہ 'انہوں نے دس سال میں چارٹر آف ڈیموکریسی کے نام پر ملک کو لوٹا گیا ہے یہ ملک کے کریمنلز ہیں، 6 ہزار ارب سے 30 ہزار روپے قرضہ چلا گیا اس کا دفاع کیسے کریں گے، جس سطح کی لوٹ مار ہوئی ہے اس ملک میں اس پر وہ ڈرے ہوئے ہیں وہ اکھٹے ہو کر کہہ رہے ہیں جمہوریت کو خطرہ ہے'۔

'پاک-امریکا تعلقات'

پاک امریکا تعلقات کے حوالے سے وزیراعظم نے کہا کہ میں نے امریکی صدر ٹرمپ کو ٹویٹ کے جواب میں کوئی غلط بات نہیں اور وہ اس بات کو سمجھتا ہے اس لیے انہوں نے ایک خط لکھا ہے اور طالبان سے مذاکرات کے لیے مدد مانگی ہے۔

وزیراعظم نے کہا کہ جب ہمارے معاشی حالات ٹھیک ہوں گے تو باہر جاؤں گا۔

ان کا کہنا تھا کہ افغانستان طالبان کو مذاکرات میں بٹھانے کے لیے ہم پوری کوشش کریں گے اور ہم کوشش کرسکتے ہیں۔

'یوٹرن عقل مندی ہے'

حکومت کے لیے جماعتوں سے اتحاد پر ان کا کہنا تھا کہ میں نے یوٹرن کو عقل مندی کہا ہے کیونکہ کوئی بھی رہنما اپنے مقاصد کے حصول کے لیے ایسا کرے گا اور جب تک میں جو پالیسی بنارہا ہوں اس پر کوئی اتحادی رکاوٹ نہ بنے اس وقت تک کوئی مسئلہ نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ میں نے کہا تھا کہ پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (ن) سے اتحاد نہیں کرنا ہے کیونکہ ان سے اتحاد کا مطلب تھا کہ کرپشن کے خلاف اپنے مقاصد پر سمجھوتا کیا جائے۔

تحریک لبیک پاکستان کا معاملہ

ٹی ایل پی کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ بدقمستی سے انہوں نے غلط رویہ اپنایا کیونکہ ہم نے حکومت میں آتے ہی کارٹون کا مقابلہ ختم کروایا ورنہ یہ تو پھر آنے والے تھے اور ہم نے عالمی طور پر اس حوالے اظہار آزادی پر کام کررہے ہیں لیکن یہ مجھے ایسے ظاہر کر رہے ہیں جیسے میں یہودیوں کو ایجنٹ ہوں۔

ان کا کہنا تھا کہ فیصلہ سپریم کورٹ کرتا ہے اور یہ مجھے نشانہ بناتے ہیں اور ان لوگوں کو خوف ہے کہ یہ پکڑے جائیں گے۔

قانونی اصلاحات کے حوالے سے سینیٹ میں مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی سے بات کرنے پر ان کا کہنا تھا کہ اس کا مطلب ہے ان کے خلاف پیچھے ہٹنا ہے لیکن ہم ایسا قانون لارہے ہیں اگر کسی نے بھی اس کی مخالفت کی تو وہ عوام میں جانے کے لائق نہیں رہے گا۔

جنوبی پنجاب صوبہ

جنوبی پنجاب صوبے کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ یہ جب وقت آئے گا تو دیکھا جائے گا، یہ ضروری ہے کیونکہ رحیم یار خان اور دور دراز علاقوں سے لاہور آنا پڑتا ہے جبکہ ماضی میں ترقیاتی کاموں کو صحیح ترتیب نہیں دیا گیا۔

مزید پڑھیں:اپوزیشن کا نئے صوبے سے متعلق حکومتی ارادے پر شکوک وشبہات کا اظہار

صوبہ بنانے کی صورت میں وسطی پنجاب میں اکثریت ختم ہونے کے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ 'یہ تو دیکھا جائے گا ہوسکتا ہے پہلے ہی الیکشن ہوجائیں، ایک کپتان حکمت عملی ہر وقت بدل سکتا ہے ایک دم وسیم اکرم کو کسی وقت بھی لاسکتا ہے اور یہ عثمان بزدار زبردست ہے اور یہ وسیم اکرم پلس نکل رہا ہے'۔

وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ گورنر ہاؤس کی دیواریں توڑنے کا مقصد صرف ایک دیوار توڑنا نہیں تھا بلکہ انگریز وہاں بیٹھ کر ہمارے عوام پر حکمرانی کرتے تھے اور یہ نوآبادیاتی نظام کی نشانیاں ہیں لیکن ہم تمام عمارتوں کو محفوظ کریں گے لیکن یہ ساری علامات ختم ہوں گی۔

آصف زرداری کی جانب سے حکومت کے نہ چلنے کے بیان پر ان کا کہنا تھا کہ سب کی خواہش یہ ہے کہ حکومت نہ چلے کیونکہ انہیں پتہ ہے کہ جتنا عرصہ یہ حکومت چلے گی سب کی باری آئے گی۔

تبصرے (0) بند ہیں