سپریم کورٹ آف پاکستان نے دادو میں ’نئی گج‘ ڈیم کی تعمیر سے متعلق تمام فریقین کو مل کر لائحہ عمل طے کرکے ایک ہفتے میں عدالت کو آگاہ کرنے کا حکم دے دیا۔

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں بینچ نے دادو میں ’نئی گج‘ ڈیم کی تعمیر میں تاخیر سے متعلق کیس کی سماعت کی، اس دوران ڈپٹی اٹارنی جنرل عدالت میں پیش ہوئے۔

انہوں نے عدالت کو بتایا کہ وفاق اور وزارت آبی وسائل کی طرف سے جواب جمع کرادیا ہے جبکہ حکومت سندھ کا جواب آگیا ہے اور وہ ڈیم کا متبادل بنانا چاہ رہے ہیں۔

جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ ڈیم ہر صورت بننے ہیں، ساتھ ہی جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ 16 ارب روپے جاری کیے جاچکے ہیں، اب کیسے کہہ رہے ہیں کہ کچھ اور بنانا ہے۔

مزید پڑھیں: فنڈز کی عدم فراہمی: دادو ڈیم کی تکمیل 4 برس تاخیر کا شکار

اس پر عدالت میں موجود واپڈا کے نمائندے نے بتایا کہ کنٹریکٹر کی بینک گارنٹی جعلی ہے، 51 فیصد کام ہوچکا ہے، باقی کام رکا ہوا ہے، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ حکومت سندھ، متعلقہ وزارت اور وفاقی حکومت کو بلا لیتے ہیں اور پوچھ لیتے ہیں کہ یہ کیسے ہوا؟

عدالت کے استفسارپر نمائندہ واپڈا نے بتایا کہ بینک آف پنجاب نے بتایا کہ بینک گارنٹی ٹھیک ہے، بعد میں پتہ چلا کہ یہ جعلی گارنٹی ہے۔

اس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا کریں 16 ارب روپے خرچ ہونے کے بعد ڈیم کا کام روک دیں؟ اس پر نمائندہ واپڈا نے بتایا کہ یہ ڈیم 4 برسوں میں مکمل ہونا تھا، صرف 20 فیصد رقم جاری ہوئی، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں اس کی تفصیلات دیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ڈیم کے لیے جاری 16 ارب روپےعوام کا پیسہ ہے، کھانچے مارنے کے لیے منصوبے شروع کیے جاتے ہیں، کمیشن لے کر منصوبے ادھورے چھوڑ دیے جاتے ہیں۔

اس پر واپڈا کے نمائندے نے بتایا کہ سندھ حکومت کہتی ہے کہ منچھر جھیل کو زیادہ پانی دیں جبکہ زیادہ پانی دینے سے قابل کاشت رقبہ کم ہوجائے گا۔

جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ 16 ارب روپے کم نہیں ہوتے، اتنی رقم خرچ ہونے کے بعد اب یہ خیال آرہا ہے، آپ پہلے سے ساری چیزیں طے کیوں نہیں کرتے۔

یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ کا ڈھڈوچہ ڈیم کی تعمیر کا معاملہ کابینہ میں بھیجنے کا حکم

چیف جسٹس نے کہا کہ ڈیم بننا چاہیے 16 ارب روپے ضائع تو نہیں کرسکتے، بیٹھ کر دیکھیں کیا کرنا ہے، سندھ حکومت کی طرف سے تو کوئی آتا ہی نہیں، اس معاملے پر سیکریٹری پلاننگ تجاویز دیں۔

اس موقع پر سماعت میں کچھ دیر کے لیے وقفہ کردیا گیا، وقفے کے بعد سماعت کا آغاز ہوا تو چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ وفاقی حکومت نے ڈیم کے لیے فنڈز جاری کرنے تھے، رپورٹ کے چکر سے نکل آئیں، یہ ڈیمز بنے ہیں، یہ بتا دیں حکومت کب فنڈز جاری کرے گی۔

اس پر ڈپٹی اٹارنی جنرل نے بتایا کہ حکومت سندھ نے موقف تبدیل کیا ہے، سندھ حکومت ڈیم کی تعمیر پر ہچکچاہٹ کا شکار ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اس معاملے کا ڈیم کی تعمیر سے کیا تعلق ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ46 ارب روپے وفاقی حکومت کو ڈیم کے لیے جاری کرنے ہیں، ڈیم پر 51 فیصد کام مکمل ہوچکا ہے۔

دوران سماعت ڈپٹی اٹارنی جنرل نے بتایا کہ عدالت مہلت دیں، رپورٹ جمع کروادیتے ہیں، مجھے متعلقہ اداروں سے رپورٹ رات تاخیر سے ملی ہے جبکہ ڈیم کی تعمیر میں فنڈز کا کچھ حصہ سندھ حکومت نے بھی دینا ہے۔

انہوں نے دوبارہ بتایا کہ 2 ارب روپے کی بینکنگ گارنٹی جعلی نکلی، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کیا اس ڈیم کی تعمیر کو بند کر دیں؟

اس دوران نمائندہ پلاننگ ڈویژن نے بتایا کہ سندھ حکومت کہتی ہے کہ ڈیم کی تعمیر کا کئی فائدہ نہیں، جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ڈٰم سے متعلق عدالت کو تمام تفصیل فراہم کی جائے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ حکومت سندھ کہتی ہے کہ اب ڈیم کی ضرورت نہیں، 16 ارب روپے خرچ ہوگئے، کک بیکس کے لیے منصوبے پر کام شروع کروایا اور اب کہتےہیں ڈیم کی ضرورت نہیں۔

بعد ازاں عدالت نے تمام فریقین کو مل کر لائحہ عمل طے کرکے ایک ہفتے میں عدالت کو آگاہ کرنے کا حکم دے دیا۔

خیال رہے کہ دادو میں نئی گج ڈیم کی تعمیر کا سلسلہ 25 اپریل 2012 کو شروع ہوا، جسے اپریل 2015 تک مکمل ہونا تھا لیکن غیر ضروری تاخیر کی وجہ سے یہ اب تک مکمل نہیں ہوسکا۔

غیر ضروری تاخیر کی وجہ سے اس منصوبے کی لاگت بھی بڑھ گئی اور مقررہ وقت میں مکمل ہونے کی صورت میں 16 ارب 92 کروڑ روپے کی لاگت اندازے کے مطابق 26 ارب روپے تک پہنچ سکتی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں