سابق وفاقی وزیر خزانہ سرتاج عزیز کا کہنا ہے کہ پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کے تمام منصوبوں کومقررہ مدت میں مکمل ہونا چاہیے تاکہ ملک میں صنعتکاری اور ملازمت کے مواقع کا آغاز ہو۔

اسلام آباد میں 21 ویں سسٹین ایبل ڈیولپمنٹ کانفرنس سے بات کرتے ہوئے سرتاج عزیز کا کہنا تھا کہ سی پیک کی وجہ سے ملک کی مجموعی قومی پیداوار ( جی ڈی پی) کی شرح میں گزشتہ برس 5.8 فیصد اضافہ ہوا۔

ان کا کہنا تھا کہ سی پیک صرف راہداری اور توانائی کا منصوبہ نہیں بلکہ تھنک ٹینکس، سرکاری اور نجی سیکٹر، شہریوں اور نظریات کے مابین تعلق قائم کرنے کے لیےبھی اہم ہے۔

سرتاج عزیز نے کہا کہ ایک تجارتی راہداری سے معلوماتی راہداری میں کامیاب تبدیلی کے لیے تمام اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لینا اہم ہے۔

’امن اور ترقی کے لیے معلوماتی کوریڈورز ‘ کے عنوانی کے تحت 4 روزہ کانفرنس کا انعقاد سسٹین ایبل ڈیولپمنٹ پالیسی انسٹیٹیوٹ ( ایس ڈی پی آئی) کی جانب سے کیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں : سی پیک کے حوالے سے عالمی برادری کو زیادہ اندازے لگانے کی ضرورت نہیں، چین

سرتاج عزیز نے ماحولیاتی تبدیلی اور جنوبی ایشیا پر اس کے اثرات سے متعلق بات چیت بھی کی۔

ان کا کہنا تھا کہ اصل مسئلہ ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات کے مقابلہ کرنے کی قابلیت ہے، انہوں نے پانی کی اہمیت پر بھی روشنی ڈالی۔

انہوں نے کہا کہ پانی، ماحولیاتی تبدیلی کا اہم حصہ ہے، انہوں نے ڈیمز تعمیر کرنے کی ضرورت اور پانی کے نظام کو بہتر بنانے کے اقدامات کیے جانے پر بھی زور دیا۔

سرتاج عزیز نے آب پاشی کے موجودہ طریقوں پر بھی تنقید کی جو دریاؤں کے پانی کا 60 فیصد حصہ استعمال کرتے ہیں.

انہوں نے کہا کہ توانائی کے قابل استطاعت ذرائع کی منصوبہ بندی ایک اور اہم منصوبہ ہے اس لیے انہوں نے ذراعت کے شعبے پر توجہ دینے، برآمدات اور زرعی تجارت بڑھانے کی تجویز دی۔

ایک علیحدہ سیشن میں وفاقی وزیر برائے ریلوے شیخ رشید نے بھارت کو سی پیک میں شمولیت کی دعوت دی۔

یہ بھی پڑھیں : پاکستان نے سی پیک سے متعلق مزید شفافیت کا مطالبہ کردیا

ان کا کہنا تھا کہ اعتماد قائم کرنا ہی دوسرے ممالک سے تعلقات مضبوط کرنے کا بنیادی جزو ہے۔

شیخ رشید نے کہا تھا کہ ’ ہمارے ریلوے میں بہت بہتری آئی اور طورخم تک نیا ریلوے ٹریک قائم کیا گیا ہے تاہم، مزید بہتری کی ضرروت ہے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ ہم اپنی معیشت کی بہتری کے لیے ہر قوم کے ساتھ کام کرنا چاہتے ہیں ، اہم کشیدگی کے باوجود افغانستان کے ساتھ ریلوے کے شعبے میں بہتری کے لیے کام کرنا چاہتے ہیں‘۔

بورڈ آف انویسٹمنٹ کے چیئرمین ہارون شریف کا کہنا تھا کہ یہ جاننا ضرروی ہے کہ آخر کیوں جنوبی ایشیا تجارت اور سرمایہ کاری میں پیچھے ہے۔

انہوں نے کہا تھا کہ ترقیاتی ممالک جنوبی ایشیائی ممالک کو جس نظریے سے دیکھتی تھے وہ اب بدل رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ جغرافیائی و سیاسی اور سیکیورٹی سے معاشی نقطہ نظر کی تبدیلی پاکستان کو ترقی کی دوڑ میں پیچھے کی جانب دھکیل رہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ خطے میں مالیاتی کام بڑھ رہا ہے جیسے ایشین انفرااسٹرکچر بینک، دی سلک روڈ فنڈ، دی چائنا ڈیولپمنٹ بینک اور بی آر آئی سی بینک کا قیام شامل ہے۔

مزید پڑھیں : پاک-چین اقتصادی راہداری کے قرض کی ادائیگی کی تیاری

انہوں نے کہا کہ یہ سیکھنے کی ضرورت ہے کہ ان ذرائع کو خطے کی ترقی میں کس طرح استعمال کیا جاسکتا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ یہ بہت ہی واضح چیز ہے کہ اہم ایشیائی ممالک کے ساتھ شراکت داری اسی صورت میں کامیاب ہوسکتی ہے اگر ہم شفافیت اور بدعنوانی کے لیے عدم برداشت کو یقینی بنائیں‘۔

بھارت کے ریسرچ اینڈ انفارمیشن سسٹم فار ڈیولپنگ کنٹریز کے پروفیسرامیتابھ کوندو کا کہنا تھا کہ ماحولیاتی تبدیلی ان اہم مسئلوں میں سے ہے جس کے حل کے لیے تمام ایشیائی ممالک کو تعاون کرنے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ ترقی اور خوشحالی کے لیے مشترکہ مقاصد کے حصول کے لیے معاشی، صحت اور تعلیم کے شعبوں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

ایس ڈی پی آئی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر عابد قیوم کا کہنا تھا کہ 21 ویں کانفرنس کا مقصد 3 ثقافتی اور علمی خطوں ( جنوبی ایشیا ، وسطی ایشیا اور چین) کے درمیان معلوماتی تعلق کی اہمیت کو اجاگر کرنا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ معلوماتی راہداری کی سب سے اہم ضرورت تعلیمی تعاون ہے جس میں سی پیک جنوبی ایشیا کو چین اور وسطی ایشیا سے ملانے کی قوت رکھتا ہے۔


یہ خبر ڈان اخبار میں 6 دسمبر 2018 کو شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں