اسلام آباد: چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے پاک-ترک اسکولز سے متعلق درخواست پر سماعت کے دوران ریمارکس دیئے ہیں کہ ترکی نے جس تنظیم کو دہشتگرد قرار دیا، وہ پاکستان میں کیسے کام کرسکتی ہے۔

سپریم کورٹ میں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں بینچ نے پاک-ترک اسکول کے انتظام کی حوالگی سے متعلق کیس سماعت کی۔

دوران سماعت پاک-ترک اسکولز کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ معارف فاونڈیشن کا دہشت گرد آرگنائزیشن سے کوئی تعلق نہیں۔

جس پر ڈپٹی اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ 2015 میں آرگنائزیشن نے 41 کروڑ 50 لاکھ کے اثاثے گولن کو منتقل کیے تھے۔

مزید پڑھیں: پاک ۔ ترک اسکول کا انتظام ’معارف فاؤنڈیشن‘ کے حوالے

اس موقع پر پاک-ترک اسکولز کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ 2016 میں ترکی کے وزیراعظم نے پاکستان کا دورہ کیا اور دورے کے بعد پاکستانی حکومت نے پاک-ترک اسکولز بند کرنے کا اعلان کیا تھا۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ دہشت گرد آرگنائزیشن کا آپریشن سیکشن 42 کے تحت آتا ہے۔

انہوں نے ریمارکس دیئے کہ ترک حکومت نے اس تنظیم کو دہشت گرد قرار دیا ہوا ہے تو ایسی تنظیم کو کس طرح یہاں کام کی اجازت دے سکتے ہیں۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ اس آرگنائزیشن نے دنیا بھر میں اسکول کھول رکھے ہیں، کسی دہشتگرد تنظیم کو ایسی اجازت نہیں دی جا سکتی۔

یہ بھی پڑھیں: پاک ترک اساتذہ کی ملک بدری: سنگل بینچ کا فیصلہ کالعدم

سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت کو پاک-ترک اسکولز کا انتظام سنبھالنے کا حکم دیتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ اگر وفاقی حکومت نے اسکول چلانے ہیں، تو خود ٹیک اوور کرے۔

جس کے بعد سپریم کورٹ نے پاک-ترک اسکولز کی درخواست نمٹا دیا۔

پاک-ترک اسکولز کا معاملہ

یاد رہے کہ فوجی بغاوت کی ناکامی کے بعد ترک صدر نے وزیر اعظم نواز شریف سے پاکستان میں کام کرنے والے پاک-ترک اسکول کے 28 کیمپسز کے عملے کو مزید کام کرنے سے روکنے کی درخواست کی تھی۔

پاکستانی حکام کی جانب سے پاک-ترک اسکول کے عملے کے ویزوں میں توسیع نہ کیے جانے کے بعد چند روز قبل 108 ترک ملازمین اور ان کے اہلخانہ کو اقوام متحدہ کے تحت تحفظ حاصل ہوگیا تھا۔

دستاویزات کے مطابق پاک۔ترک اسکولوں کے ترک عملے نے بے دخلی کے معاملے پر اقوام متحدہ سے رجوع کیا۔

ترک عملے کی جانب سے اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین سے درخواست کی گئی کہ انہیں ترکی کے علاوہ کسی بھی دوسرے ملک میں آباد کیا جائے۔

مزید پڑھیں: تصدیق شدہ دستاویزات کے حامل کسی ترک شہری کو ملک بدر نہیں کیا، وزیر مملکت

واضح رہے کہ ترک حکومت نے 15 جولائی 2016 کو ملک میں بغاوت کی ناکام کوشش کے بعد بڑے پیمانے پر کریک ڈاؤن کرتے ہوئے بغاوت کی حمایت کے شبے میں ایک لاکھ 20 ہزار سے زائد افراد کو گرفتار کرلیا تھا۔

بعد ازاں پاکستانی حکومت نے ترک صدر رجب طیب اردگان کے دورہ پاکستان سے محض دو روز قبل پاک۔ترک اسکول کے ترک عملے کے ویزوں میں توسیع کی درخواست کو رد کردیا تھا۔

ترک عملے کے ویزوں کی میعاد ستمبر 2016 میں پوری ہوگئی تھی، جن کی وزارت داخلہ کی جانب سے تجدید نہیں کی گئی۔

تبصرے (0) بند ہیں