اسلام آباد: چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں بل بورڈ ہٹانے کے خلاف نظر ثانی اپیل خارج کرتے ہوئے 3 ماہ میں بل بورڈ ہٹانے کا حکم دیتے ہوئے ریمارکس دیئے ہیں کہ باقی دنیا میں بل بورڈ پلوں پر نہیں لگے ہوئے، میرے ایک جاننے والے پر بل بورڈ گرنے سے ان کی موت ہوگئی تھی۔

چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے لاہور میں بل بورڈ ہٹانے کے خلاف نظر ثانی اپیل کی سماعت کی۔

دوران سماعت نجی ٹرسٹ کے وکیل امان اللہ کنرانی نے کہا کہ بل بورڈ انڈسٹری 36 ارب ٹیکس دے رہی ہے، یہ ٹرسٹ سرگودھا میں ہے، جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ عدالتی حکم ماحول کو بہتر کرنے کے لیے اور خطرات کو کم کرنے کے لیے تھا۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ کا ملک بھر میں غیر قانونی بل بورڈز ہٹانے کا حکم

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہم نے کہا تھا کہ کراچی والا حکم ملک بھر پر لاگو ہوگا، کراچی میں بل بورڈ اترنے سے شہر خوبصورت ہوگیا ہے، وہ لوگ جنت میں آگئے۔

اس موقع پر درخواست گزار کے وکیل علی ظفر نے کہا کہ بل بورڈ صنعت کا حجم 50 ارب روپے ہے، جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ منشیات کی صنعت کا حجم بھی 50 ارب ہے، اگر اس پیمانے پر جانچ پڑتال کرنی ہے تو منشیات کی صنعت اس سے بھی بڑی ہے، تو کیا اسے بھی اجازت دے دیں؟

وکیل علی ظفر نے عدالت کو بتایا کہ اس صنعت سے ہزاروں لوگ وابستہ ہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ بل بورڈ کے مقامات مخصوص کرنے کے لیے قانون سازی کریں، پھر ہم دیکھیں گہ کہ ہمارے اختیار میں کیا چیزیں نہیں ہیں۔

وکیل کنٹونمنٹ لطیف کھوسہ نے کہا کہ بل بورڈ صنعت مفاد عامہ کا معاملہ ہے، بل بورڈ شہر کے حسن میں اضافہ کرتے ہیں، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ دنیا میں بل بورڈ ہوتے ہیں ایسا نہیں ہوتا کہ پلوں پر لگے ہوں، آندھی چلے تو گاڑیوں پر گر سکتے ہیں، میرے ایک جاننے والے کی گاڑی پر بل بورڈ گرا اور وہ وفات پا گئے۔

اس موقع پر کنٹونمنٹ کے وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ کنٹونمنٹ میں اس طرح کا ایک واقعہ بھی نہیں ہوا، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کنٹونمنٹ میں کیا آندھی کی رفتار مختلف ہوتی ہے، اس موقع پر عدالت میں قہقہے بلند ہو گئے۔

یہ بھی پڑھیں: لاہور:ڈسٹرکٹ پراسیکیوٹر کی نوکری نہ ملنے پر وکیل کی خودسوزی کی کوشش

بعد ازاں عدالت نے بل بورڈ ہٹانے کے خلاف نظر ثانی اپیل خارج کرتے ہوئے 3 ماہ میں بل بورڈ ہٹانے کا حکم دے دیا اور ساتھ ہی حکم دیا کہ ڈی ایچ اے سے بھی بل بورڈ ہٹائے جائیں ورنہ ان لوگوں کے خلاف بھی کارروائی کریں گے۔

17 اکتوبر 2018 کو سپریم کورٹ نے ملک بھر عوامی مقامات پر لگے غیر قانونی بل بورڈز کو ڈیڑھ ماہ میں ہٹانے کا حکم دیا تھا۔

اس سے قبل سپریم کورٹ کی جانب سے کراچی میں عمارتوں اور شاہراہوں پر لگے بل بورڈز کو ہٹانے کا حکم دیا گیا تھا جبکہ رواں سال جون میں عدالت عظمیٰ نے شہر قائد میں شاہراہ فیصل سمیت تمام شاہراہوں پر اشتہاری مقاصد کے لیے بنائی گئیں دیواروں کو منہدم کرنے کا حکم دیتے ہوئے آئندہ اس مقصد کے لیے دیواریں بنانے پر پابندی عائد کردی تھی۔

اس کے علاوہ 25 اگست 2018 چیف جسٹس نے الیکشن مہم کے دوران انتخابی امیدواروں کی حمایت میں لگائے گئے بینرز کو اتارنے کے حوالے سے کیس کی سماعت کرتے ہوئے لاہور میں بل بورڈ لگانے کے خلاف نوٹس لیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں