سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف فلیگ شپ انویسٹمنٹ ریفرنس میں قومی احتساب ادارے (نیب) کے حتمی دلائل مکمل ہونے پر دفاعی کونسل نے احتساب عدالت سے وقت طلب کرلیا۔

دلائل مکمل کرتے ہوئے قومی احتساب ادارے (نیب) کے استغاثہ نے عدالت کو بتایا کہ نواز شریف کو کیپیٹل ایف زیڈ ای سے 2006 سے 2013 کے درمیان 10 ہزار درہم موصول ہوتے رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ شریف خاندان کو سپریم کورٹ میں اپنی جائیداد کے بارے میں وضاحت کرنے کا پہلے موقع دیا جاچکا جبکہ سپریم کورٹ کی جانب سے پاناما پیپر کیس میں بنائی گئی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) دوسرا موقع تھا جہاں وہ وضاحت کرسکتے تھے۔

مزید پڑھیں: العزیزیہ ریفرنس: نواز شریف کے وکیل کے حتمی دلائل مکمل

انہوں نے کہا کہ تیسرا موقع شریف خاندان کو تحقیقاتی افسر کی جانب سے طلب کرکے دیا گیا تھا، شریف خاندان اپنے اثاثوں کے حوالے سے وضاحت دینے میں متعدد مواقع ملنے کے باوجود ناکام رہے ہیں۔

استغاثہ کا کہنا تھا کہ شریف خاندان عدالت عظمیٰ میں اپیل دائر کی تھی کہ ان کی جلا وطنی کے دوران سابق وزیر اعظم کے والد میاں محمد شریف، جن کا انتقال 2004 میں ہوا، نے حسین نواز کے لیے 54 لاکھ درہم اور حسن نواز کے لیے 42 لاکھ درہم دیے تھے تاکہ وہ برطانیہ اور سعودی عرب میں اپنا کاروبار شروع کرسکیں۔

منی ٹریل کے حوالے سے شریف خاندان نے وضاحت کی کہ یہ رقم میاں محمد شریف نے قطر کے شاہی خاندان میں کی گئی 1 کروڑ 20 لاکھ روپے کی سرمایہ کاری میں سے دی تھی جبکہ قطری شہزادے شیخ حماد بن جاسم بن جابر الثانی جے آئی ٹی کے سامنے ان تفصیلات کی تصدیق کے لیے کبھی پیش نہیں ہوئے۔

نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے اپنے حتمی دلائل میں کہا کہ جے آئی ٹی نے قطری شہزادے کا بیان ریکارڈ کرنے کے لیے کوششیں نہیں کی کیونکہ اس سے دفاع کا کیس مضبوط ہوتا۔

یہ بھی پڑھیں: نواز شریف چاہتے ہیں مریم نواز کا این آر او ہوجائے، شیخ رشید

ایڈووکیٹ خواجہ حارث نے التجا کی کہ مرحوم میاں شریف نے 1974 میں متحدہ عرب امارات میں گلف اسٹیل مل کی بنیاد رکھی تھی جس کے 75 فیصد حصص 1978 میں عبداللہ اہلی کو فروخت کیے گئے تھے جس کی وجہ سے بعد ازاں اس کا نام اہلی اسٹیل ملز (اے ایس ایم) رکھا گیا تھا جبکہ بقیہ 25 فیصد اے ایس ایم کو 1980 میں فروخت کیے گئے تھے اور یہ رقم 1 کروڑ 20 لاکھ درہم تھی جو قطری شاہی خاندان میں سرمایہ کاری کی گئی تھی۔

استغاثہ نے اعتراض کیا کہ شریف خاندان کے مطابق یہ ذاتی ٹرانزیکشنز تھیں کیونکہ رقم کو صحیح راستوں سے نہیں بھیجا گیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ ان کے اس بیان پر جے آئی ٹی کو اعتماد نہیں ہوا تھا۔

انہوں نے مزید کہا کہ شریف خاندان کوالعزیزیہ/ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ میں حسین نواز کی جانب سے 54 لاکھ اور فلیگ شپ انویسٹمنٹ و دیگر کمپنیوں میں حسن نواز کی جانب سے 42 لاکھ درہم کی سرمایہ کاری کو ثابت کرنا تھا تاہم شریف خاندان اس کی وضاحت نہیں کرسکا۔

استغاثہ کے مطابق نواز شریف ہی اپنے بیٹوں کی جانب سے لگائی گئی کمپنیوں کے مالک ہیں جبکہ ان کے دونوں صاحبزادے بے نامی دار ہیں۔

استغاثہ کی جانب سے حتمی دلائل مکمل ہونے پر دفاعی کونسل خواجہ حارث نے استغاثہ کے دلائل پر جواب دینے کے لیے عدالت سے وقت طلب کیا۔

بعد ازاں احتساب عدالت نے سماعت کو ایک روز کے لیے ملتوی کردیا۔


یہ خبر ڈان اخبار میں 19 دسمبر 2018 کو شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں