آرمی چیف نے 14 دہشت گردوں کی سزائے موت کی توثیق کردی

اپ ڈیٹ 21 دسمبر 2018
چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ — فائل فوٹو
چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ — فائل فوٹو

چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے 14 خطرناک دہشت گردوں کی سزائے موت کی توثیق کردی۔

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق دہشت گرد مسلح افواج، قانون نافذ کرنے والے اداروں پر حملوں، شہریوں کے قتل، پولیس اسٹیشن، تعلیمی ادارے اور مواصلاتی انفرااسٹرکچر کی تباہی جیسے سنگین جرائم میں ملوث تھے۔

ان دہشت گردوں کے حملوں میں مسلح افواج کے 13 اہلکاروں سمیت 16 افراد شہید اور 19 زخمی ہوئے، جبکہ ان کے قبضے سے اسلحہ اور بارودی مواد بھی برآمد ہوا۔

بیان میں کہا گیا کہ خصوصی فوجی عدالتوں کی جانب سے ان دہشت گردوں کو سزائے موت سنائی گئی تھی۔

فوجی عدالتوں نے 20 مجرمان کو مختلف عرصے کی قید کی سزائیں بھی سنائیں۔

ان تمام دہشت گردوں کا تعلق کالعدم تنظیموں سے تھا اور انہوں نے ٹرائل کے دوران جوڈیشل مجسٹریٹ کے سامنے اپنے جرائم کا اعتراف کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: 15 خطرناک دہشت گردوں کی سزائے موت کی توثیق

جن دہشت گردوں کی سزائے موت کی توثیق کی گئی ان میں محی الدین، گل زمین، فضل ہادی، محمد وہاب، گل محمد، بشیر احمد، آفرین خان، برکت علی، محمد اسلام، روح الامین، شتامند، باچا وزیر، محمد اور محمد اسمٰعیل شامل ہیں۔

واضح رہے کہ یہ ایک ماہ کے دوران تیسرا موقع ہے جب آرمی چیف نے متعدد دہشت گردوں کی سزائے موت کی توثیق کی ہے۔

16 دسمبر کو جنرل قمر جاوید باجوہ نے 15 دہشت گردوں جبکہ 23 نومبر کو 11 دہشت گردوں کی سزائے موت کی توثیق کی تھی۔

یاد رہے کہ 21ویں آئینی ترمیم کے تحت قائم ہونے والی فوجی عدالتوں کی جانب سے اب تک دہشت گردی میں ملوث کئی مجرمان کو سزائے موت سنائی جاچکی ہے اور ان میں سے بڑی تعداد کو آرمی چیف کی توثیق کے بعد تختہ دار پر لٹکایا بھی جاچکا ہے۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ: فوجی عدالتوں سے سزا یافتہ 7 ملزمان کی سزائے موت معطل

فوجی عدالتوں کو دیئے گئے یہ خصوصی اختیارات گزشتہ برس جنوری میں ختم ہوگئے تھے، تاہم اُسی سال مارچ کے مہینے میں پہلے قومی اسمبلی اور پھر سینیٹ سے فوجی عدالتوں میں 2 سالہ توسیع کے لیے 28ویں آئینی ترمیم کا بل دو تہائی اکثریت سے منظور کیا گیا تھا۔

بعد ازاں سابق صدر ممنون حسین نے 23ویں آئینی ترمیم سمیت آرمی ایکٹ 2017 پر دستخط کردیئے تھے، جس کے بعد فوجی عدالتوں کی مدت میں مزید 2 سال کی توسیع ہوگئی تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں