پی ایس ایل کی خوشگوار یادیں اور توقعات کا بھاری بوجھ

اپ ڈیٹ 28 دسمبر 2018
نجم سیٹھی کی زیرِ قیادت سپر لیگ نے جو کڑے معیارات مرتب کیے ہیں، کیا 'نئے پاکستان' میں احسان مانی ان تک پہنچ پائیں گے؟
نجم سیٹھی کی زیرِ قیادت سپر لیگ نے جو کڑے معیارات مرتب کیے ہیں، کیا 'نئے پاکستان' میں احسان مانی ان تک پہنچ پائیں گے؟

پاکستان کرکٹ ٹیم کا بہت بڑا امتحان جنوبی افریقہ میں شروع ہوچکا ہے جہاں 3 ٹیسٹ میچوں پر مشتمل سیریز کا پہلا مقابلہ سنچورین میں جاری ہے، لیکن اس سے بھی بڑی آزمائش کا سامنا پاکستان کرکٹ بورڈ کو ہے کہ جس کی نئی قیادت کو پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کے چوتھے سیزن کا انعقاد کرنا ہے۔

نئی انتظامیہ نے اب تک کئی اہم قدم اٹھائے ہیں جیسا کہ ملتان فرنچائز کو بھاری قیمت پر نئے مالک کو فروخت کردیا ہے، تمام ٹیموں کا انتخاب عمل میں آچکا ہے بلکہ شیڈول کا اعلان بھی کردیا گیا ہے جس کے مطابق پی ایس ایل 4 کا آغاز 14 فروری کو دفاعی چیمپیئن اسلام آباد یونائیٹڈ اور لاہور قلندرز کے مقابلے سے ہوگا اور یہ سلسلہ 17 مارچ کو کراچی میں فائنل تک جاری رہے گا۔ اس دوران 7 مارچ کو ٹورنامنٹ متحدہ عرب امارات سے پاکستان منتقل ہوگا اور پہلے مرحلے کے آخری 4 مقابلے، 3 کوالیفائرز اور فائنل کراچی اور لاہور کے میدانوں پر کھیلے جائیں گے۔

لیکن ملین ڈالرز کا سوال یہ ہے کہ کیا پی ایس ایل 4 توقعات پر پورا اتر پائے گی؟ نجم سیٹھی کی زیرِ قیادت سپر لیگ کے 3 کامیاب سیزنز نے جو کڑے معیارات مرتب کیے ہیں، کیا 'نئے پاکستان' میں احسان مانی ان تک پہنچ پائیں گے؟

اس سوال کا جواب تو وقت ہی دے گا لیکن یہ کہنا ہرگز غلط نہیں ہوگا کہ اس مقام تک پہنچنا کافی مشکل ہے کیونکہ پی ایس ایل کو پاکستان کا سب سے بڑا برانڈ بنانے میں اہم ترین کردار ان یادگار لمحات کا ہے، جو پچھلے سیزن میں دیکھنے کو ملے تھے۔ آئیں نئے سال اور پی ایس ایل کے نئے سیزن سے قبل ان یادوں کو تازہ کرلیں کہ جو 2018ء میں ہم نے سمیٹیں۔

کراچی-لاہور ٹاکرا

اس میں تو کوئی شک ہی نہیں کہ پی ایس ایل کے ہر سیزن کا سب سے بڑا مقابلہ 'کراچی-لاہور ٹاکرا' ہوتا ہے۔ پچھلے سال دونوں کا ایک مقابلہ تو ایسا ہوا کہ شاید ہی کبھی بھلایا جاسکے۔ یہ سیزن کا 24واں میچ تھا جس کی آخری گیند پر لاہور قلندرز کو جیتنے کے لیے 3 رنز کی ضرورت تھی، لیکن عثمان شنواری کی گیند پر گلریز صدف کا لگایا گیا شاٹ لانگ-آن پر کیچ ہوگیا۔

توقعات کے عین مطابق کراچی کنگز کے حامیوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی، کوچ مکی آرتھر سمیت سب کے چہرے خوشی سے دمک رہے تھے کہ ری پلے میں پتہ چلا کہ عثمان کا قدم کریز سے آگے پڑا تھا اور یوں یہ ایک نو-بال قرار پائی۔ اس کے بعد جو ہوا وہ تو ناقابلِ یقین تھا، آخری گیند پر مقابلہ ٹائی ہوگیا اور یوں فیصلہ سُپر اوور میں ہوا۔ سنیل نرائن نے قلندرز کے لیے یہ اہم اوور پھینکا۔ کراچی کے شاہد آفریدی کے آخری گیند پر چھکے کے باوجود لاہور نے 11 رنز کا کامیابی سے دفاع کیا۔

یہ پی ایس ایل 3 کا پہلا سپر اوور نہیں تھا، اس سے پہلے لاہور قلندرز اسلام آباد یونائیٹڈ کے خلاف ایک میچ ٹائی کرچکے تھے لیکن تب سُپر اوور میں اُن کا سامنا آندرے رسل سے تھا جنہوں نے شاہد آفریدی والی غلطی نہیں کی حالانکہ درکار رنز بھی زیادہ تھے، یعنی 16۔ جب 2 گیندوں پر 7 رنز کی ضرورت تھی تو رسل نے مستفیض الرحمٰن کو پہلے چوکا اور پھر آخری گیند پر چھکا لگا کر مقابلے کا فیصلہ کیا۔

پشاور اور کوئٹہ کے درمیان کھیلا گیا ایلی منیٹر

تیسرے سیزن کی ایک خاص بات یہ تھی کہ اِس بار آخری دونوں کوالیفائرز لاہور میں ہوئے تھے۔ ایلی منیٹر میں دفاعی چیمپیئن پشاور زلمی کا سامنا روایتی حریف کوئٹہ گلیڈی ایٹرز سے تھا۔ یہ ایک نہ بھلا پانے والا مقابلہ تھا۔ کوئٹہ کو آخری اوور میں 25 رنز کی ضرورت تھی جب انور علی نے ایک چوکا اور 3 چھکے لگا کر مقابلے کو ایسے مقام تک پہنچا دیا جہاں سے جیت صاف نظر آ رہی تھی۔ اب آخری گیند پر صرف 3 رنز کی ضرورت تھی لیکن انور علی کا لگایا گیا شاٹ لانگ-آن کو پار نہیں کر پایا۔ اگرچہ وہاں کھڑے عمید آصف آسان کیچ تو نہیں پکڑ پائے لیکن اپنے حواس کو قابو میں رکھا اور گیند کو باؤنڈری لائن پار ہونے سے بھی روکا اور بروقت تھرو کرکے رن آؤٹ بھی حاصل کرلیا۔یوں کوئٹہ صرف ایک رن سے شکست کھا کر ٹورنامنٹ سے باہر ہو گیا۔

کراچی میں کھیلا گیا فائنل

جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ پاکستان سپر لیگ کا پہلا سیزن مکمل طور پر متحدہ عرب امارات میں ہوا تھا لیکن دوسرے کا سب سے بڑا مقابلہ یعنی فائنل لاہور میں کھیلا گیا تھا۔ تیسرے سیزن کی خاص بات یہ تھی کہ اس کا فائنل کراچی کے تاریخی نیشنل اسٹیڈیم میں منعقد ہوا۔ یہاں اسلام آباد یونائیٹڈ اور پشاور زلمی کے درمیان ایک کانٹے دار مقابلہ ہوا جس کا اختتام فہیم اشرف کے ایک شاندار چھکے کے ذریعے ہوا اور یوں اسلام آباد ایک مرتبہ پھر پی ایس ایل چیمپیئن بن گیا۔

کئی چھوٹے مگر یادگار لمحات

پی ایس ایل 3 میں ہمیں چھوٹے چھوٹے کئی ایسے لمحات بھی دیکھنے کو ملے کہ جن کو یاد کرکے ڈھیروں خون بڑھ جاتا ہے۔

  • شاہین آفریدی کا شاہد آفریدی کو آؤٹ کرنے کے بعد جشن منانے کے بجائے انہیں محبت سے الوداع کہنا۔
  • ایک وکٹ لینے پر وہاب ریاض کے بجائے حسن علی کا ان کی مونچھوں کو تاؤ دینا۔
  • وکٹیں لینے پر عمران طاہر کی لمبی دوڑیں۔
  • ایلن ولکنز اور ڈینی موریسن کے علاوہ مائیکل سلیٹر اور ڈیمین فلیمنگ کے شاندار تبصرے
  • کئی یادگار کیچز جیسا کہ کراچی کنگز کے جو ڈینلی نے جونٹی رہوڈز کی یادیں تازہ کیں،
  • عمر اکمل و شاہین آفریدی کے 'ریلے کیچ'
  • ڈین جونز کی خفیہ ڈائری جس نے اسلام آباد کو ایک بار پھر چیمپیئن کے مرتبے پر فائز کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔

انہی یادگار لمحات کو مدِنظر رکھتے ہوئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ چوتھے سیزن پر توقعات کا بہت بھاری بوجھ ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ نئی انتظامیہ ان توقعات پر کیسے اور کتنا پورا اترتی ہے؟ یہاں اچھی خبر یہ ہے کہ اب انتظار زیادہ نہیں بس ڈیڑھ مہینے کا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں