اسلام آباد: احتساب عدالت نے اپنے تفصیلی فیصلے میں کہا ہے کہ سابق وزیر اعظم نواز شریف کو فلیگ شپ ریفرنس میں ناکافی ثبوت پر ’شک کا فائدہ‘ دیتے ہوئے بری کیا گیا۔

خیال رہے کہ 24 دسمبر کو احتساب عدالت کے جج ارشد ملک نے کہا تھا کہ ’ انہیں فلیگ شپ ریفرنس میں نواز شریف کے خلاف کچھ نہیں ملا اور ملزم کو اس کیس میں بری کیا جاتا ہے‘۔

عدالت نے اپنے تفصیلی فیصلے میں کہا کہ دستیاب شواہد کی بنا پر نواز شریف کا بینیفشل اونر ہونا خارج از امکان نہیں۔

مزید پڑھیں: العزیزیہ ریفرنس میں نواز شریف کو 7 سال قید، فلیگ شپ ریفرنس میں بری

جج نے مزید کہا کہ ’دستیاب ثبوت کی بنیاد پر‘ مسلم لیگ(ن) کے قائد کو شک کا فائدہ دیا جاتا ہے۔

تاہم عدالت نے اپنے فیصلے میں حسن اور حسین نواز کے ناقابل ضمات وارنٹ گرفتاری جاری کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ یہ دنوں اشتہاری ہی رہیں گے اور وطن واپسی پر ان کا ٹرائل کیا جائے گا۔

تفصیلی فیصلے میں 2015 کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ عدالت نے فیصلے میں کہا کہ کسی شخص کے قصور وار ہونے کا مکمل یقین ہونے تک سزا نہیں دی جاسکتی۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ گلف اسٹیل مل کی فروخت سے کمپنیاں بنانے کا دعویٰ بوگس ثابت ہوا جبکہ نواز شریف کے قوم سے خطاب کے مندرجات بھی قابل قبول نہیں۔

تفصیلی فیصلے میں کہا گیا کہ کمپنیوں کے قیام کے وقت کم عمر حسن نواز کا کوئی آزاد ذریعہ معاش نہیں تھا جبکہ یہ بھی خارج از امکان ہے کہ فلیگ شپ انویسٹمنٹ میں 7 لاکھ پاؤنڈ کی سرمایہ کاری نواز شریف کی ہو۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ اس بات کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ نوازشریف نے 7 لاکھ پائونڈ اپنی خفیہ رقم سے دیے ہوں۔

فیصلے کے مطابق عدالت اس بات پر مطمئن ہے کہ نواز شریف، شریف خاندان کے بااثر فرد ہیں اور اپنے والد میاں شریف کی وفات کے بعد سابق وزیر اعظم عملی طور پر خاندان کے سربراہ تھے۔

احتساب عدالت نے اپنے تفصیلی فیصلے میں کہا کہ کیپیٹل ایف زیڈ ای میں نواز شریف کی تنخواہ کے معاملے پر سپریم کورٹ کا فیصلہ موجود ہے۔

واضح رہے کہ اسلام آباد کی احتساب عدالت نے 24 دسمبر کو نواز شریف کو العزیزیہ ریفرنس میں 7 سال قید بامشقت اور بھاری جرمانے کی سزا سنائی تھی، جبکہ فلیگ شپ ریفرنس میں انہیں بری کردیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: نیب کا فلیگ شپ ریفرنس میں نواز شریف کی بریت چیلنج کرنے کا فیصلہ

عدالتی فیصلے میں نواز شریف پر العزیزیہ ریفرنس میں ڈیڑھ ارب روپے اور ڈھائی کروڑ ڈالر (تقریباً ساڑھے 3 ارب پاکستانی روپے) یعنی لگ بھگ 5 ارب روپے سے زائد جرمانہ عائد کیا گیا تھا۔

عدالت کی جانب سے مختصر فیصلے میں کہا گیا کہ فلیگ شپ ریفرنس میں ان کے خلاف ثبوت نہیں لہٰذا انہیں بری کیا جاتا ہے ، تاہم العزیزیہ ریفرنس میں نواز شریف کے خلاف ٹھوس ثبوت موجود ہیں، جس پر انہیں 7 سال قید اور جرمانے کی سزا دی جاتی ہے۔

بعد ازاں قومی احتساب بیورو (نیب) نے فلیگ شپ ریفرنس میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کی بریت کے فیصلے کو چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

چیئرمین نیب نے قانونی ٹیم کو ہدایت کی تھی کہ مکمل تیاری، ٹھوس شواہد اور قانون کے مطابق فلیگ شپ کیس میں احتساب عدالت اسلام آباد کے فیصلے کی مصدقہ نقل حاصل کرکے نواز شریف کی بریت کے خلاف اپیل دائر کی جائے۔

تبصرے (0) بند ہیں