امریکی ایوان نمائندگان نے گزشتہ برس کے تیسرے شٹ ڈاؤن کو ختم کرنے کے لیے 6 بل منظور کرلیے تاہم صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے میکسیکو کی سرحد کے ساتھ دیوار کی تعمیر کے لیے فنڈز کا بل مسترد کردیا گیا۔

واضح رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے امریکا کی میکسکو کے ساتھ سرحد پر دیوار کی تعمیر کے لیے 5 ارب ڈالرز کا مطالبہ کیا گیا تھا، لیکن ڈیموکریٹس کی طرف سے اس کی مخالفت کی گئی اور فریقین کے درمیان کوئی معاہدہ نہ ہونے پر درجنوں سرکاری اداروں کے لیے وفاقی فنڈز جاری نہیں ہوسکے تھے۔

ایوان نمائندگان کی جانب سے منظور ہونے والے 6 بلوں کے بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 'ٹوئٹر' پر اپنے مؤقف کا اظہار کیا کہ 'شٹ ڈاؤن کی وجہ 2020 میں صدارتی انتخاب ہے‘۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’ڈیموکریٹ جانتے ہیں کہ وہ ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابیوں کے سامنے نہیں جیت سکتے اس لیے وہ میکسیکو کی سرحدی دیوار کو متنازع بنا کر سیاست چمکا رہے ہیں‘۔

ایوان نمائندگان سے بل کی منظوری کے بعد پبلک سیکٹر کے ورکرز کو واجبات ادا کیے جاسکیں گے اور امریکی فوجیوں کو بھی تنخواہ مل سکے گی، جس کے بعد کئی ہفتوں کا شٹ ڈاؤن اختتام پذیر ہوگا۔

مزید پڑھیں: امریکی حکومت کا ملک میں ’شٹ ڈاؤن‘ کا اعلان

خیال رہے کہ عارضی اخراجات پر اتفاق رائے نہ ہونے کے باعث امریکی حکومت گزشتہ دو ہفتوں سے شٹ ڈاؤن کا شکار تھی۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے شٹ ڈاؤن کی نوید سناتے ہوئے کہا تھا کہ ’شٹ ڈاؤن کا دورانیہ ایک مہینے سے لے کر کئی سال‘ تک ممکن ہے اور اس دوران پبلک سیکٹر کے ورکرز کو بغیر اجرت کے گھر بھیج دیا جائے گا حتیٰ کہ امریکی فوجیوں کو بھی حکومتی سرگرمیاں بحال ہونے تک رقوم کی ادائیگی نہیں کی جائے گی، تاہم فوجی سرگرمیاں اور ضروری سروسز اس دوران بحال رہیں گی۔

اس شٹ ڈاؤن کے اعداد و شمار میں انتہائی خراب صورتحال سامنے آئی کیونکہ 8 لاکھ وفاقی ملازمین کو کرسمس کی چھٹیوں تک عارضی رخصت یا بغیر تنخواہ کے کام کرنے پر مجبور کیا گیا۔

شٹ ڈاؤن کی تاریخ

دسمبر 2018 کے آخر میں ہونے والے شٹ ڈاؤن کو ملا کر گزشتہ برس امریکا میں ہونے والے شٹ ڈاؤن کی تعداد 3 ہوگئی تھی۔

اس سے قبل سال 2018 کے آغاز میں 20 جنوری کو عارضی اخراجات کے بل پر اتفاق رائے نہ ہونے پر شٹ ڈاؤن کیا گیا تھا۔

اس شٹ ڈاؤن کے دوران پبلک سیکٹر کے ورکرز کو بغیر اجرت کے گھر بھیج دیا گیا تھا، یہاں تک کہ امریکی فوجیوں کو بھی حکومتی سرگرمیاں بحال ہونے تک رقوم کی ادائیگی نہیں کی گئی تھی۔

مزیدپڑھیں: ٹرمپ نیوز پر 96 فیصد نتائج قومی بائیں بازو کے میڈیا کی طرف سے ہیں

شٹ ڈاؤن روکنے کے لیے امریکی ایوان نمائندگان میں عارضی اخراجات کا بل منظور کیا گیا تھا، تاہم سینیٹ میں ہونے والی رائے شماری میں ٹرمپ انتظامیہ کو اس حوالے سے شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

بعد ازاں 9 فروری 2018 کو بھی امریکا میں سال کا دوسرا شٹ ڈاؤن ہوا تھا، تاہم امریکی صدر نے قانونی بل پر دستخط کرکے اس شٹ ڈاؤن کو روک دیا تھا۔

یاد رہے کہ اس سے قبل اکتوبر 2013 میں امریکا میں 16 روز تک شٹ ڈاؤن رہا تھا، اس دوران تقریباً 8 لاکھ وفاقی ملازمین عارضی رخصت پر بھیج دیے گئے تھے جبکہ بقیہ 13 لاکھ کو کام پر رپورٹ کرنے کا کہا گیا تھا۔

یہ شٹ ڈاؤن بھی حکومتی اخراجات کے معاملے پر سابق امریکی صدر صدر باراک اوباما اور کانگریس میں ان کے ریپبلکن مخالفین کے مابین عدم اتفاق رائے کے باعث ہوا تھا۔

مزید پڑھیں: ڈونلڈ ٹرمپ کی میڈیا کے بعد گوگل پر بھی تنقید

اس سے قبل 1995 اور 1996 میں بھی امریکا میں 2 شٹ ڈاؤن ہوئے تھے، یہ شٹ ڈاؤن وفاقی بجٹ میں طبی سہولیات، تعلیم، ماحول، عوامی صحت سے متعلق اخراجات پر ڈیموکریٹک صدر بل کلنٹن اور حریف ریپبلکن کے درمیان تنازع کے نتیجے میں ہوئے تھے۔

امریکی تاریخ میں 1990 میں بھی شٹ ڈاؤن دیکھا گیا جبکہ اس سے پہلے 1981، 1984، 1986 میں بھی کئی لاکھ وفاقی ملازمین کو عارضی رخصت پر بھیجادیا گیا تھا۔

یاد رہے کہ امریکا میں یکم مئی 1980 کو تاریخ کا پہلا شٹ ڈاؤن ہوا تھا جس کی وجہ بھی اخراجات کا تنازع ہی تھی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں