حسینہ واجد کی جعلی تصاویر فیس بک پر پوسٹ کرنے والے نوجوان کو 7 سال قید

10 جنوری 2019
انٹرنیٹ قوانین کی خلاف ورزی سے متعلق 200 مقدمات التوا کا شکار ہیں — فائل فوٹو
انٹرنیٹ قوانین کی خلاف ورزی سے متعلق 200 مقدمات التوا کا شکار ہیں — فائل فوٹو

بنگلہ دیش کی وزیراعظم حسینہ واجد کی تصاویر میں تبدیلی کرنے اور انہیں سوشل میڈیا پر پوسٹ کرنے کے جرم میں ایک نوجوان کو انٹرنیٹ قوانین کے تحت سزا سنادی گئی۔

خیال رہے کہ ناقدین کے مطابق بنگلہ دیش میں انٹرنیٹ قوانین اختلاف رائے کو کچلنے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔

فرانسیسی خبررساں ادارے ’ اے ایف پی ‘ کے مطابق دسمبر 2018 میں پرتشدد اور متنازع انتخابات کے بعد لگاتار تیسری مرتبہ وزیراعظم بننے والی حسینہ واجد کو ملک میں آمریت بڑھانے کا ذمہ دار ٹھہرایا جارہا ہے۔

مزید پڑھیں : بنگلہ دیش: انتخابات کے دوران انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر اقوام متحدہ کو تشویش

ڈھاکہ کی سائبر ٹربیونل نے 35 سالہ محمد منیر کو حسینہ واجد اور سابق صدر ظل الرحمٰن کی تصاویر میں رد و بدل کرنے اور انہیں سوشل میڈیا پر پوسٹ کرنے کا ذمہ دار قرار دیا۔

پروسیکیوٹر نظر الاسلام شمیم نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’ انہوں نے ان جعلی تصاویر کو اپنے فیس بک اسٹیٹس میں پوسٹ کیا اور اس کے کیپشن میں توہین آمیز الفاظ استعمال کیے‘۔

محمد منیر کو ساؤتھ ایشین کنٹری انفارمیشن اینڈ کمیونیکیشن ٹیکنالوجی ( آئی سی ٹی) قوانین کی دفعہ نمبر 57 کے تحت سزا سنائی گئی۔

نظرالاسلام شمیم نے 2013 میں سائبر عدالت فعال کیے جانے سے لے کر اب تک کم از کم 7 افراد کو حسینہ واجد اور دیگر افراد سے متعلق جرائم میں قید کی سزا سنائی جاچکی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اسی نوعیت کے مزید 2 سو مقدمات التوا کا شکار ہیں اور اکثر کا ٹرائل جاری ہے۔

یہ بھی پڑھیں : بنگلہ دیش انتخابات: اپوزیشن نے نتائج مسترد کردیے، پرتشدد واقعات میں 15 افراد ہلاک

دوسری جانب انسانی حقوق کے گروہوں کا کہنا ہے کہ آئی سی ٹی قوانین کو 16 کروڑ 50 لاکھ آبادی کے ملک میں تنقید کو خاموش کروانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

حالیہ چند مہینوں میں آئی سی ٹی قوانین کو ڈیجیٹل سیکیورٹی ایکٹ سے تبدیل کردیا گیا جسے ناقدین کی جانب سے حکام کو آزادی اظہار رائے کو ختم کرنے کا ذمہ دار قرار دیا جاتا ہے، تاہم بنگلہ دیش کی حکومت ان الزامات کو مسترد کرتی ہے۔

یاد رہے کہ 30 دسمبر کو بنگلہ دیش میں گیارہویں عام انتخابات میں پولنگ کے دوران مختلف پر تشدد واقعات میں کئی افراد ہلاک ہوئے اور پولنگ کے چند گھنٹوں بعد ہی اپوزیشن نے انتخابات کے نتائج مسترد کرتے ہوئے انہیں کالعدم قرار دینے کا مطالبہ کیا تھا۔

جس کے بعد اقوامِ متحدہ (یو این) نے چند روز قبل بنگلہ دیشی حکام سے 30 دسمبر کو ہونے والے انتخابات سے قبل اور بعد میں مختلف واقعات میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے مرتکب افراد کو کیفرِ کردار تک پہنچانے کا مطالبہ کیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں