سپریم کورٹ: ایون فیلڈ ریفرنس میں شریف خاندان کی سزا معطلی کے خلاف نیب کی اپیل خارج

اپ ڈیٹ 14 جنوری 2019
اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف نیب نے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی تھی—فائل فوٹو
اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف نیب نے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی تھی—فائل فوٹو

سپریم کورٹ آف پاکستان نے ایون فیلڈ ریفرنس میں اسلام آباد ہائیکورٹ کا فیصلہ برقرار رکھتے ہوئے سابق وزیر اعظم نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن ریٹائر صفدر کی سزا معطلی کے خلاف قومی احتساب بیورو (نیب) کی اپیل خارج کردیں۔

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس آصف سعید، جسٹس گلزار احمد، جسٹس مشیر عالم، جسٹس مظہر عالم پر مشتمل 5 رکنی بینچ نے نواز شریف، مریم نواز، کیپٹن(ر) محمد کی سزا معطلی کے خلاف نیب کی اپیل پر سماعت کی۔

اس دوران نیب کی جانب سے خصوصی پراسیکیوٹر اکرم قریشی جبکہ نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل دیے جبکہ کمرہ عدالت میں مسلم لیگ(ن) کے رہنما راجا ظفر الحق، اقبال ظفر جھگڑا، رفیق رجوانہ اور حافظ حفیظ الرحمٰن موجود رہے۔

مزید پڑھیں: ایون فیلڈ سزا معطلی کیس: کیوں نہ ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم کردیں، چیف جسٹس

سماعت کے دوران نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے عدالت کو بتایا کہ 17 قانونی نکات ہیں، جن پر عدالت نے بحث کا کہا تھا، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پہلے ہم اس پر بات کر چکے ہیں، آپ بیٹھ جائیں پہلے نیب کا مؤقف سن لیتے ہیں۔

اس پر نیب پراسیکیوٹر نے مؤقف اپنایا کہ سزا معطلی میں اسلام آباد ہائیکورٹ نے قانونی تضاضوں کو مدنظر نہیں رکھا، کیس کے میرٹ پر بات کی گئی جو کہ ہائیکورٹ کا اختیار نہیں ہے، جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ضمانت منسوخی کے قواعد کے بارے میں بتائیں۔

چیف جسٹس کے استفسار پر نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ ہائیکورٹ کے شواہد کے مطابق سزا بھی نہیں بنتی، اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہمیں سارے حقائق پتہ ہیں اس سے ہٹ کر آپ کس بنیاد پر ضمانت منسوخی چاہتے ہیں۔

انہوں نے نیب پراسیکیوٹر سے پھر استفسار کیا کہ آپ بتادیں کن اصولوں پر ضمانت منسوخ ہوسکتی ہے، یہ بھی بتا دیں کہ کیا ہائیکورٹ کو سزا معطل کرنے کا اختیار تھا، جس پر پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ ضمانت کے کیس میں میرٹ کو نہیں دیکھا جا سکتا لیکن ہائی کورٹ نے میرٹ کو دیکھا۔

نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ اس کیس میں عدالت ٹرائل کورٹ کے میرٹ پر گئی جو کہ اختیارات سے تجاوز تھا جبکہ ہائیکورٹ نے خصوصی حالت کو بنیاد بنایا۔

اس پر جسٹس گلزار نے ریمارکس دیے کہ ضروری نہیں کہ یہ حالات واقعی ایسے ہوں، آپ کن بنیادوں پر ضمانت منسوخی چاہ رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ نے وزیراعظم نواز شریف کو نااہل قرار دے دیا

ساتھ ہی چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ضمانت تو اب ہوگئی ہے, بے شک غلط اصولوں پر ہوئی ہو، آپ ہمیں مطمئن کریں کہ ہم کیوں سزا معطلی کے ہائی کورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دیں۔

اس پر نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ میں عدالت عظمیٰ کے مقدمات کی بنیاد پر ہی کہہ رہا ہوں، صرف ہارڈشپ کے اصولوں پر ضمانت ہوسکتی ہے جبکہ نواز شریف اور مریم نواز کی ضمانت ہارڈشپ کے اصولوں پر نہیں ہوئی۔

دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ایک چیز سمجھ لیں عبوری حکم کبھی حتمی نہیں ہوتا جبکہ عبوری حکم حتمی حکم پر اثر انداز بھی نہیں ہوتا۔

جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے جس بنیاد پر نواز شریف کو سزا ہوئی، اسی بنیاد پر ان کی ضمانت بھی ہوئی، آپ نے تو اس بنیاد کو چیلنج ہی نہیں کیا۔

عدالت میں دوران سماعت جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے کہ ہائیکورٹ نے خود کہا کہ آبزرویشن حتمی نہیں، صرف انتہائی بیماری اور علالت کی وجہ سے ضمانت ہوسکتی ہے اور ہائیکورٹ نے غیرضروری طور پر تجاوز نہیں کیا۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے مزید ریمارکس دیے کہ بدقسمتی سے ملزم ایک بار پھر جیل میں ہے، نیب قانون میں ضمانت کا تصور متعارف کرانے کی ضرورت ہے۔

اس پر وکیل نیب نے کہا کہ ہارڈشپ کی بنیادوں پر ضمانت نہیں ہوئی، جس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے کہ یہ آپ کی کوئی ٹھوس بنیاد نہیں۔

بعد ازاں عدالت نے ہائیکورٹ کا فیصلہ برقرار رکھتے ہوئے نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کی سزا معطلی کے خلاف نیب کی اپیل خارج کردی۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ نیب ضمانت کی منسوخی کا گراؤنڈ نہیں دے سکا، ساتھ ہی جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے کہ ضمانت دیتے وقت اختیار کا ناجائز استعمال نہیں ہوا۔

ایون فیلڈ ریفرنس فیصلہ

خیال رہے کہ 6 جولائی 2018 کو شریف خاندان کے خلاف قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے دائر ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ سناتے ہوئے اسلام آباد کی احتساب عدالت نے سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف کو 10 سال، ان کی صاحبزادی مریم نواز کو 7 سال جبکہ داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر کو ایک سال قید بامشقت کی سزا سنائی تھی۔

احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے نواز شریف پر 80 لاکھ پاؤنڈ (ایک ارب 10 کروڑ روپے سے زائد) اور مریم نواز پر 20 لاکھ پاؤنڈ (30 کروڑ روپے سے زائد) جرمانہ بھی عائد کیا تھا۔

مزید پڑھیں: ایون فیلڈ ریفرنس میں نواز شریف کی سزا معطلی کے خلاف اپیل سماعت کیلئے مقرر

اس کے علاوہ احتساب عدالت نے شریف خاندان کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ سناتے ہوئے لندن میں قائم ایون پراپرٹی ضبط کرنے کا حکم بھی دیا تھا۔

بعد ازاں نواز شریف نے اس فیصلے کے خلاف اسلام آباد ہائیکورٹ سے رجوع کیا تھا، جہاں 19 ستمبر کو ہائیکورٹ نے احتساب عدالت کی جانب سے سزا دینے کا فیصلہ معطل کرتے ہوئے ان کی رہائی کا حکم دے دیا تھا۔

جس کے بعد 22 اکتوبر کو نیب نے نواز شریف کی رہائی سے متعلق اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں