اسلام آباد: سپریم کورٹ نے ام رباب چانڈیو کے خاندان کے قتل کیس میں سندھ پولیس کی کارکردگی پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے مفرور ملزمان کو گرفتار کرکے 15 روز میں فرد جرم عائد کرنے اور ٹرائل کورٹ کو 3 ماہ میں مقدمے کی سماعت مکمل کرنے کا حکم دے دیا۔

ام رباب چانڈیو کے خاندان کے قتل سے متعلق کیس کی سماعت چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے کی۔

خیال رہے کہ لاڑکانہ میہڑ کی ام رباب چانڈیو کے خاندان کے افراد کو 2017 میں قتل کیا گیا تھا۔

دوران سماعت چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے کہ باپ، بیٹا، پوتا سب قتل ہوگئے ابھی تک کوئی ریلیف نہیں ملا، شاید اس کیس کے پیچھے وڈیرے ہیں، ابھی تک فیصلہ نہیں ہوا کہ دہشت گردی کی دفعات لگیں گی یا نہیں۔

مزید پڑھیں: میہڑ میں قتل کا معاملہ:ورثا کا پی پی پی رکن اسمبلی کی گرفتاری کا مطالبہ

انہوں نے مزید ریمارکس دیئے کہ صرف آواز اٹھائی تھی کہ وڈیروں کو لڑکیوں کے ساتھ اس طرح کا سلوک نہیں کرنا چاہیے۔

درخواست گزار کے وکیل فیصل صدیقی نے عدالت کو بتایا کہ ملزمان نے ضمانت قبل از گرفتاری کروائی ہے، ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) نے ملزمان کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے، ام رباب چانڈیو کو عدالت جانے کے لیے بھی تحفظ کی ضرورت ہے۔

اس موقع پر ام رباب چانڈیو کا کہنا تھا کہ میرے مقدمے کو کراچی منتقل کر دیں، میہڑ میں خطرات کا سامنا ہے، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اس کے لیے آپ کو ہائیکورٹ میں درخواست دینا پڑے گی۔

بعد ازاں عدالتی حکم نامے میں کہا گیا کہ پولیس حکام نے انسداد دہشت گردی عدالت حیدرآباد میں چالان جمع کرا دیا ہے، مقدمہ منتقلی کی درخواست سندھ ہائیکورٹ میں زیر التوا ہے، عدالت عالیہ 15 روز میں درخواست پر فیصلہ کرے۔

سپریم کورٹ نے مفرور ملزمان کو گرفتار کر کے آئندہ 15 روز میں ان پر فرد جرم عائد کرنے کا حکم بھی دیا جبکہ ساتھ ہی یہ حکم بھی دیا کہ ٹرائل کورٹ ملزم سردار خان چانڈیو کی ضمانت منسوخی پر 3 ہفتوں میں فیصلہ کرے۔

عدالت عظمیٰ نے حکم دیا کہ ام رباب چانڈیو اور خاندان کو مکمل سیکیورٹی فراہم کی جائے اور مقدمے کا ٹرائل 3 ماہ میں مکمل کیا جائے جبکہ ساتھ ہی پولیس کو ہر ماہ پیشرفت رپورٹ جمع کرانے کا بھی حکم دیا گیا۔

تہرے قتل کا معاملہ

یاد رہے کہ 17 جنوری 2018 کو میہڑ میں مسلح افراد نے یونین کونسل کے چیئرمین قمراللہ چانڈیو کے گھر پر حملہ کرکے انہیں اور ان کے دو بیٹوں بلدیہ کے اراکین مختیار اور قابل کو قتل کردیا تھا۔

نواب چانڈیو اور ان کے بھائیوں نواب برہان چانڈیو سمیت دیگر پانچ افراد کے خلاف مبینہ طور پر اس واقعے میں ملوث ہونے والے پر مقدمہ درج کرادیا گیا تھا بعد ازاں رکن صوبائی اسمبلی اور ان کے بھائی کا نام ناکافی ثبوت کی بنا پر ایف آئی آر سے خارج کردیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: دادو قتل کیس: رکن صوبائی اسمبلی کو ٹرائل کورٹ میں پیش ہونے کا حکم

مقتولین کے ورثا کی جانب سے سخت جدوجہد کے بعد پی پی پی سے منسلک مبینہ ملزمان کے خلاف ایف آئی آر درج کرادی گئی تھی جبکہ میہڑ اور دادو پولیس ملزمان کو گرفتار کرنے سے ہچکچا رہی تھی۔

بعد ازاں 28 مارچ 2018 کو مقتولین اہل خانہ احتجاج کرنے اسلام آباد پہنچے تھے جہاں انہوں نے پی پی پی رکن صوبائی اسمبلی نواب سردار احمد چانڈیو کی گرفتاری کا مطالبہ کیا تھا۔

13 ستمبر 2018 کو سپریم کورٹ نے ضلع دادو میں تہرے قتل کے مقدمے کی تفتیش ختم کرتے ہوئے پی پی پی کے رکن صوبائی اسمبلی ملزم برہان چانڈیو سمیت پانچوں ملزمان کو ٹرائل کورٹ میں پیش ہونے کا حکم دیا تھا اور ٹرائل کورٹ کو ہدایت کی تھی کہ وہ پورے مقدمے کا ازسرنو جائزہ لے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں