برطانوی وزیر اعظم کو نئے بریگزٹ منصوبے پر ڈیڈلاک کا سامنا

اپ ڈیٹ 17 جنوری 2019
بریگزٹ معاہدے پر برطانوی وزیر اعظم کو پارلیمنٹ میں شکست ہوئی تھی—فائل فوٹو
بریگزٹ معاہدے پر برطانوی وزیر اعظم کو پارلیمنٹ میں شکست ہوئی تھی—فائل فوٹو

برطانوی وزیر اعظم تھریسامے کو یورپی یونین سے علیحدگی (بریگزٹ) کے معاہدے پر شکست کے بعد بریگز کے نئے پلان پر ڈیڈ لاک کا سامنا ہے۔

تھریسامے کی جانب سے پیر کو متبادل مسودہ پارلیمنٹ میں پیش کرنے سے قبل اپوزیشن رہنماؤں سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ کراس پارٹی مذاکرات کے لیے ملاقات کریں۔

تاہم ان کے مخالفین کی جانب سے تعاون کے لیے مطالبات کی ایک فہرست تیار کی گئی ہے، جس میں انہوں نے برطانیہ کے بغیر کسی معاہدے کے یورپی یونین کے علیحدگی کے امکان کو بھی مسترد کیا ہے۔

مزید پڑھیں: یورپین یونین کی برطانیہ کے بریگزٹ معاہدے کی توثیق

برطانوی وزیر اعظم کی جانب سے اس بات کو تسلیم کیا گیا کہ یورپی یونین کے معاملے پر انہیں شکست کا سامنا کرنا پڑا اور جدید برطانوی سیاسی تاریخ میں ارکان پارلیمنٹ نے حکومت کو بدترین شکست دی اور 432 کے مقابلے میں حکومت کو صرف 202 ووٹ مل سکے۔

اس معاملے کو دیکھتے ہوئے تھریسامے نے بدھ کی شام قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’ارکان پارلیمنٹ نے واضح کردیا کہ وہ کیا نہیں چاہتے، لہٰذا پارلیمنٹ چو جاہتا ہے اس کے لیے ہمیں مل تک تعمیراتی کام کرنا چاہیے۔

انہوں نے کہا تھا کہ ’ہمیں اس کا حل نکالنا چاہیے اور اس ایوان کی حمایت کے لیے کام کرنا چاہیے‘ تاہم اپوزیشن لیڈر جیرمی کوربن نے کہا تھا کہ اگر وزیر اعظم نو ڈیل بریگزٹ کے تباہی کے تمام امکانات کو مکمل طور پر ختم کردیتی ہیں تو وہ اس صورت میں ملاقات کرسکتے ہیں۔

نے قرارداد پیش کرتے ہوئے کہاکہ حکومت کو تباہ کن شکست کا سامنا کرنا پڑا اور تھریسامے کی حکومت نے عوام اور پارلیمنٹ کا اعتماد کھو دیا ہے۔

اس پر برطانوی وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ وہ جرمی کوربن کے فیصلے سے ’مایوسی‘ ہوئی تاہم ان کے دروازے اب بھی کھلے ہیں۔

یاد رہے کہ برطانیہ میں یورپی یونین میں رہنے یا اس سے نکل جانے کے حوالے سے 23 جون 2016 کو ریفرنڈم ہوا تھا جس میں بریگزٹ کے حق میں 52 جبکہ مخالفت میں 48 فیصد ووٹ پڑے تھے اور اس پر مارچ 2019 میں عمل ہونا تھا۔

برطانوی وزیر اعظم تھریسامے نے بریگزٹ معاہدے پر عوامی فیصلے کو عملی جامہ پہنانے کا وعدہ کیا تھا لیکن شدید مخالفت کے بعد سے انہیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا اور وہ اراکین پارلیمنٹ کو منانے کی کوشش کرتی رہی تھی۔

بعد ازاں اس معاہدے پر دسمبر 2018 میں برطانوی پارلیمنٹ میں ووٹنگ ہونی تھی، تاہم اسے جنوری تک ملتوی کردیا گیا تھا۔

جس کے بعد گزشتہ دنوں برطانوی پارلیمنٹ میں بریگزٹ معاہدے پر ووٹنگ ہوئی، جس میں برطانوی پارلیمنٹ نے یورپی یونین سے علیحدگی کے وزیر اعظم تھریسامے کے بل کو واضح اکثریت سے مسترد کردیا تھا، جس کے بعد بریگزٹ کے معاملے پر دوبارہ بحث کرنے کا فیصلہ ہوا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: بریگزٹ معاہدے پر ووٹنگ، برطانوی وزیر اعظم کو بدترین شکست

بریگزٹ پر ہونے والی ووٹ نگ میں 432 ارکان پارلیمنٹ نے اس کے خلاف ووٹ دیا تھا جبکہ 202 ارکان نے وزیر اعظم کے معاہدے کے حق میں ووٹ دیا تھا۔

اس کے بعد ایوان زیریں میں برطانوی وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی تھی، جو ناکام ہوگئی تھی اور ان کا عہدہ بچ گیا تھا۔

اپوزیشن کی جانب سے پیش کی گئی اس تحریک عدم اعتماد میں برطانوی وزیر اعظم تھریسامے کے حق میں 325 جبکہ ان کی مخالفت میں 306 ووٹ آئے تھے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں