سینیٹ: سفری پابندی کی فہرست ’بلیک لسٹ‘ کے خاتمے کا مطالبہ

اپ ڈیٹ 26 جنوری 2019
بلیک لسٹ میں اندراج کا آغاز 2006 میں کیا گیا تھا—فائل فوٹو/ڈان نیوز
بلیک لسٹ میں اندراج کا آغاز 2006 میں کیا گیا تھا—فائل فوٹو/ڈان نیوز

اسلام آباد: سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف نے شہریوں کو بیرونِ ملک جانے سے روکنے کے لیے قائم کی گئی ’بلیک لسٹ‘ کو آئین و قانون کے متصادم قرار دے کر اسے اور ایسی تمام فہرستوں کو ختم کرنے کی تجویز دے دی جو شہریوں کے بنیادی حقوق کے خلاف ہیں۔

اس حوالے سے چیئرمین کمیٹی سینیٹر جاوید عباسی کا کہنا تھا کہ ’بلیک لسٹ میں ناموں کے اندراج کا سلسلہ فوری طور پر رکنا چاہیے‘۔

سینیٹر جاوید عباسی گزشتہ برس دسمبر میں ایوان میں بلیک لسٹ میں ناموں کے اندراج اور ان کی قانونی حیثیت کے حوالے سے اٹھائے گئے نقطہ اعتراض پر گفتگو کررہے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: سینیٹرز نے بلیک لسٹ کی قانونی حیثیت پر سوالات اٹھا دیے

مذکورہ نقطہ اعتراض سینیٹ چیئرمین صادق سنجرانی کی جانب سے قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کو غور کے لیے تفویض کیا گیا تھا۔

جس کے بعد دسمبر اور رواں ماہ ہونے والے قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں اس معاملے زیر غور لایا گیا تھا اور اس پر وزارتوں کا موقف جاننے کے لیے وزارت داخلہ اور انسانی حقوق کے حکام کو بھی مدعو کیا گیا تھا۔

اس ضمن میں ڈائریکٹر جنرل برائے امیگریشن اینڈ پاسپورٹ عشرت علی نے ایوان کو بتایا کہ بلیک لسٹ کا قیام پاسپورٹ مینوئل کے تحت 2006 میں سامنے آیا تھا، یہ شق 1957 سے مینوئل کا حصہ ہے اور مذکورہ مینوئل پاسپورٹ ایکٹ 1974 سے کا حصہ ہے جو پاسپورٹ کے اجرا سے متعلق ہے۔

مزید پڑھیں: ایف آئی اے سربراہ سے ’خود کار‘ سفری پابندیوں پر سوالات

رپورٹ میں کہا گیا کہ اس لسٹ کا آغاز ڈائریکٹوریٹ جنرل برائے امیگریشن اینڈ پاسپورٹ نہیں کیا تھا جبکہ صرف عدالتی اور نیم عدالتی محکموں کی تجویز پر اس میں ناموں کا اندراج کیا گیا تھا۔

رپورٹ میں وفاقی تحقیقاتی ادارے ( ایف آئی اے) کی جانب سے کہا گیا کہ ادارہ بلیک لسٹ پر ایک خودکار طریقہ کار کے تحت عملدرآمد کرواتا ہے اور ایسے شخص کا کیس آگے نہیں بڑھتا جس کا نام بلیک لسٹ میں درج ہو۔

رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری کے مطابق جمہوریت میں اس طرح کی فہرستیں قابلِ قبول نہیں جو شہریوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہیں اور ان کی کوئی قانونی حیثیت بھی نہیں۔

یہ بھی پڑھیں: حمزہ شہباز کا نام بلیک لسٹ میں شامل کرنے کا اقدام عدالت میں چیلنج

کمیٹی کے سامنے یہ بات بھی آئی کہ پاسپورٹ ایکٹ پارلیمنٹ کی جانب سے نافذ کیا گیا اور بلیک لسٹ کو برقرار رکھنے کے لیے حکومت کو ایسے کوئی اختیارات نہیں دیے گئے تھے۔

چناچہ اس قسم کے اختیارات نہ ہونے کی وجہ سے حکومت کے پاس اس طرح کی فہرستوں کو برقرا رکھنے کا کوئی جواز نہیں، جس پر قائمہ کمیٹی نے اس فہرست میں مزید نام نہ درج کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے وزارت داخلہ سے اس کے خاتمے کے لیے 10 دن میں رپورٹ طلب کرلی۔

واضح رہے کہ یہ معاملہ سینیٹ کمیٹی برائےا نسانی حقوق میں بھی زیر غور آیا تھا اور وہاں بھی ایف آئی اے کے اس قسم کے اقدامات کو قانون سے بالاتر قرار دیا گیا تھا۔


یہ خبر 26 جنوری 2019 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں