'پمرا کا قیام' میڈیا کو قابو کرنے کا اقدام قرار

اپ ڈیٹ 26 جنوری 2019
سی پی این سی اور اے پی این ایس نے پمرا کے قیام پر تشویش کا اظہار کیا—فائل فوٹو/ڈان نیوز
سی پی این سی اور اے پی این ایس نے پمرا کے قیام پر تشویش کا اظہار کیا—فائل فوٹو/ڈان نیوز

کراچی: آل پاکستان نیوز پیپر سوسائٹی (اے پی این ایس) اور کونسل آف پاکستان نیوز پیپر ایڈیٹرز (سی پی ان ای) نے وفاقی حکومت کو میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پمرا) کی تشکیل، الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا کی تمام باڈیز کو اس سے تبدیل کرنے پر تنقید کا نشانہ بنایا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اے پی این ایس نے اسے رجعت پسندانہ اقدام قرار دیا تو وہیں سی پی این ای نے اسے پرنٹ میڈیا کی آزادی کا گلہ گھوٹنے کے مترادف قرار دیا۔

اس سلسلے میں جاری کردہ اعلامیے میں اے پی این ایس کے صدر حمید ہارون اور سیکریٹری جنرل سرمد علی نے حکومتی فیصلے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسے میڈیا کے خلاف شدید رجعت پسندانہ عمل قرار دیا۔

یہ بھی پڑھیں: وفاقی حکومت کا پیمرا اور پریس کونسل کو ختم کرنے کا فیصلہ

ان کا کہنا تھا کہ میڈیا کے مروجہ قوانین، جن میں پریس کونسل آرڈیننس، پریس نیوز پیپر، نیوز ایجنسیز اینڈ بک رجسٹریشن آرڈیننس اور پیمرا آرڈیننس، جنہیں منسوخ کردیا گیا، حکومت اور میڈیا اداروں کی مشاورت سے بنائے گئے تھے۔

دوسری جانب نو تجویز کردہ پمرا کے لیے فریقین سے کوئی مشاورت نہیں کی گئی حالانکہ اس سلسلے میں وزیراعظم کے معاونِ خصوصی برائے ذرائع ابلاغ افتخار درانی اور وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے یقین دہانی بھی کروائی تھی۔

اے پی این ایس کے عہدیداروں کا کہنا تھا کہ پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا (ٹیلی ویژن، ریڈیو، سوشل اور ڈیجیٹل میڈیا) کو ایک ہی ریگولیٹری اتھارٹی کے ماتحت کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔

مزید پڑھیں: میڈیا سرکاری اشتہارات پر انحصار کے بجائے اپنے وسائل خود پیدا کرے، صدر مملکت

ان کا مزید کہنا تھا کہ نشریاتی میڈیا کو ایک چھتری تلے اکٹھا کیا جاسکتا ہے لیکن پرنٹ میڈیا کا معاملہ مختلف ہے چناچہ اسے ان کے ساتھ منسلک نہیں کیا جاسکتا، حتیٰ کے ترقی پذیر ممالک میں بھی پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا کو علیحدہ رکھا جاتا ہے۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ وزارت اطلاعات کی جانب سے اب تک پمرا کا مجوزہ منصوبہ اے پی این ایس کو فراہم نہیں کیا گیا بلکہ صرف چیدہ چیدہ نکات سے آگاہ کیا گیا ہے جس میں لائسنسنگ سسٹم بھی شامل ہے تاکہ میڈیا کو قابو کیا جاسکے۔

ان کا کہنا تھا کہ ایسا محسوس ہورہا ہے جیسے وزارت اطلاعات کے حکام نے تاریخ کے کوڑا دان سے آمر حکمران ایوب خان کا متعارف کردہ بدنامِ زمانہ پی پی او دوبارہ کھود کر نکالا اور اسے نیا نام دے دیا، جو ملک میں میڈیا کو قابلِ قبول نہیں۔

یہ بھی پڑھیں: آئی پی آئی کا سرکاری میڈیا سے سیاسی سینسر شپ کے خاتمے کا خیر مقدم

اے پی این ایس کا یہ بھی کہنا تھا کہ 18ویں آئینی ترمیم کے بعد اخبارات، کتب، اور اشاعتی معاملات سے متعلق قانون سازی صوبائی معاملہ بن چکی چناچہ وفاقی حکومت کی جانب سے اس طرح کے ادارے کا قیام قانون کی خلاف ورزی ہے۔

دوسری جانب سی پی این ای کے صدر عارف نظامانی، سینئر نائب صدر امطینان شاہد اور سیکریٹری جنرل ڈاکٹر جبار خٹک نے کہا کہ ملک میں میڈیا کو ریگولرائز کرنے کے نام پر قابو کرنے کی کوششیں کبھی کامیاب نہیں ہوں گی۔

تبصرے (0) بند ہیں